ایٹمی طاقت اور گلوبل معیشت
یہ گلوبل دنیا ہے، گلوبل معیشت اب وہ نہیں جو بھٹو کے زمانے میں تھی
کہتے ہیں کہ جب انسان پر ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑے تو وہ سنجیدہ ہونے لگتا ہے یعنی خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔
پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا کسی معجزے سے کم نہیں مگر ہمارے لیے باعث رحمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہو تا تو ہم ہندوستان جیسی قوتوں کا مقابلہ نہ کر پاتے، کشمیر کب کا ہندوستان کا حصہ بن چکا ہوتا، لیکن کیا ہم نے ایٹمی طاقت ہونے پر مغروریت دکھائی؟
پاکستان نے دنیا پر اپنے نظریاتی ریاست ہونے کا تاثر چھوڑا ۔دنیا میں خارجہ پالیسی کے کچھ مروج اصولوں پر پورا نہ اتر سکا۔ ہم ایک معاشی طاقت ہوتے ۔ ایک مہذب ریاست بن کر ابھرتے، اپنے دستور پر چلتے، ایک ذمے دار ریاست بن کر ابھرتے وہ ہم نہ کر سکے، جن پتوں پر ہمیں ناز تھا وہ ہی ہواؤں کے ساتھ بکھر گئے۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی جب امریکا کے صدر جو بائیڈن پچھلے سال اپنی ایک تقریر میں فرما رہے تھے کہ پاکستان ایک خطرناک ملک ہے! یہ وہ امریکا کے صدر ہیں جوکہ بائیں بازو کی سوچ کے حامی ہیں۔ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ پاکستان کے ایٹمی تنصیبات غلط ہاتھوں میں جا سکتے ہیں، لیکن حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے نے ہماری ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے حوالے سے ایک رپورٹ شایع کی ۔جس میں پاکستان کے حفاظتی سسٹم کو دنیا کے کئی ممالک کے سسٹم کے مقابلے میں بہترین سسٹم قرار دیا گیا اور ہندوستان اس حوالے سے،پاکستان سے بہت پیچھے ہے۔
یہ ایک بھرپور سازش تھی پاکستان کے خلاف اور بہت سی بین الاقوامی شخصیات اس سازش کا حصہ تھیں بشمول زلمے خلیل زاد بلکہ اگر ایسا کہا جائے کہ اسرائیل کا یہ پروجیکٹ تھا کہ کسی طرح پاکستان کو معاشی طور پر مفلوج کیا جائے اور اس کو ایک غیر ذمے دار ریاست کا ٹائٹل دے کر اس کی ایٹمی تنصیبات کو ناکارہ بنایا جائے۔ جب پاکستان نے سی پیک کو متعارف کروایا تو اسرائیل کے اس پروجیکٹ میں مزید تیزی آ گئی۔
امریکا کے مفادات کی حفاظت کرنے والے جریدے، ادارے اور دانشور یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ چین کا بڑی طاقت بن کر ابھرنا مشترکہ مفادات کے خلاف ہے۔ پھر امریکا اور ہندوستان میں بیٹھے ہوئے ان کے lobbyist ترغیب کار، تھنک ٹینک اور اسرائیل یہ سب مل کر اس سازش کو ہوا دے رہے تھے۔ کیسے کسی ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلا جائے ایسی سازشوں میں اسرائیل کا خاصہ تجربہ رہا ہے جیسا کہ شام، لبنان و ایران۔
امریکا کے اپنے وجود میں بہت بڑے پالیسی میکرز بیٹھے ہیں۔ انھوں نے پالیسی کے تحت طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کیے، ان مذاکرات کے سیشنز کی پیروی کرنے والے خود زلمے خلیل زاد تھے۔ پھر اپنی بیس سالہ سفارت کاری کو چھوڑ کر افغانستان سے چلے گئے اور کس طرح سے افغان قوم کو دھوکے میں رکھا۔ اس بات کو بھی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ہم نے بڑے جشن منائے کہ امریکا کی افواج نے افغانستان سے کوچ کیا اور ہمارے طالبان بھائی واپس آ گئے۔ بین الاقوامی حالات اور خطے میں اس تبدیلی پر ہندوستان نے بھی بڑا واویلا مچایا۔
کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم اپنے ملک کی سا لمیت اور ایٹمی طاقت کے اعزاز کو کس طرح سے برقرار رکھ سکتے ہیں اس کا حل صرف یہی ہے ہمیں اپنی معاشیات کو مضبوط کرنا ہوگا اور معاشی مضبوطی، انتہا پرستی کا بیانیہ اپنانے سے نہیں آتی۔ یہ Stability نہیں آسکتی جب تک کہ ہم اپنے اس سسٹم کو بہتر نہ بنائیں جس سسٹم میں ہماری معیشت ترقی کررہے۔
ایسے سسٹم میں نہیں جہاں طالبان ہوں، جہاں ڈالر آمدورفت بینکوں کے ذریعے کم اور ہنڈی کے ذریعے زیادہ ہو، دہشت گردی کا ڈر و خوف ہو، جہاں ملک کی آدھی معیشت Undocumented غیر دستاویزی ہو، اسمگلنگ ہو اور اسی طرح کے کاروبار میں ملوث لوگوں کی اپنی پرائیوٹ فورسز ہوں اور ان اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ انصاف بھی خرید سکتے ہوں۔ انتخابات میں دھاندلی کر کے اپنے لوگوں کو پارلیمنٹ کی کرسیوں پر بٹھا کر اپنی پسند کا وزیر اعظم لا سکتے ہوں اور پھر انتہا پسندی کے بیانیہ کو مروج کر سکتے ہوں۔
اندر سے اس ملک کو کھوکھلا کریں اور ہم کھائیں پاپا جونز کا پیزا! مگر یہ سب حقیقت ہے کہ کس طرح بلڈر مافیا نے اپنے کام کروائے، رشوت کے طور پر ڈائمنڈ کے سیٹ دیے گئے۔ صرف اعظم خان سواتی سے اعتراف کیوں؟ یہ اعترافات تو اس بلڈر مافیا سے بھی کروانے چاہئیں جن کے سینے میں بڑے بڑے راز دفن ہیں۔
اس ملک میں بجلی کی فراہمی کے نام پر کس طرح سے الیکٹرک کمپنیاں زائد بلوں کی مد میں عوام کو لوٹ رہی ہیں کہ جیسے ہم ان کے مقروض ہوں۔ اس بات کا اندازہ شاید ہمارے حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ عوام کے دلوں میں ایک لاوا پک رہا ہے ان الیکٹرک کمپنیوں کے خلاف۔
گوربا چوف سوویت یونین میں سیاسی طور پر انھیں ادوار میں ابھرے جب کمیونسٹ پارٹی نے سوویت یونین کی معیشت کو تباہ کردیا۔ گوربا چوف ایک بہترین شخصیت تھا جس نے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ سے نجات دلائی، مگر وہ سوویت یونین کی معیشت کو نہ سنبھال سکا کہ بہت دیر ہو چکی تھی اور سوویت یونین چو نکہ مارکیٹ اکانومی کے اصولوں پر نہ تھا لہٰذا اس کی اکانومی کو واپس بحال کرنا ممکن نہ تھا۔
سوویت یونین میں ان اصولوں کو نہ اپنانے کی وجہ سے سپلائی چین بیٹھ گئی۔ دکانوں پر قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ سوویت یونین میں اس سسٹم کے خلاف مارشل لاء بھی آیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر جن کی عمر اس وقت سو سال ہے، حال ہی میں چین کا دورہ کیا اور چین کے صدر سے ملاقات کی۔ بہت تیزی سے امریکا کے نامور لوگ چین کا دورہ کررہے ہیں۔ قریباً بیس سال کے بعد چین کی معیشت میں بھی مندی آگئی ہے۔ چین کو معلوم ہے کہ اس کا کاروبار پوری دنیا کے ساتھ ہے لہٰذا چین کو اپنے کاروبار کے لیے پوری دنیا میں امن چاہیے۔
یہ گلوبل دنیا ہے، گلوبل معیشت اب وہ نہیں جو بھٹو کے زمانے میں تھی۔ اب کوئی ملک آزاد نہیں ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ مودی صاحب کا دیرینہ خواب کہ پاکستان کا وجود اس دنیا کے نقشے پر نہ رہے وہ پورا نہ ہو سکا۔ پاکستان قائم و دائم ہے۔ضرورت اس مافیا کو ختم کرنے کی ہے جو اس ملک کی سا لمیت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ وہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کر سکیں۔
پاکستان کو اس دنیا کے افق پر ایک ذمے دار ملک کے طور پر ابھرنا ہوگا اور پاکستان کی سا لمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس بیانیے کو واپس لانا ہوگا جس کا ووجودجناح کی گیارہ اگست کی تقریر میں ہے اور اسی تقریر کو ہم نے ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ سے غائب کردیا۔