میں مرنے کو تیار ہوں
دنیا کو ہمیشہ ایک منڈیلا کی ضرورت رہے گی
آج سے 105 سال پہلے جنوبی افریقا کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بچے کا جنم ہوا۔ اس کا باپ اپنے قبیلے کا سربراہ اور نومولود اس کا جانشین تھا۔ اس نے ابتدائی تعلیم کے بعد قانون کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم کے دوران وہ طلبا سیاست میں فعال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد اپنے قبیلے کی سرداری قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ وہ اپنے وطن کو سفید فام نسل پرست سامراجی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے اپنی زندگی وقف کرچکا ہے۔
نیلسن منڈیلا نے پوری جوانی عقوبت خانوں میں گزار دی۔27 سال قیدوبند کی سختیاں جھیلنے کے بعد وہ اس وقت آزاد ہوئے جب دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا اور دیوار برلن گرچکی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور بیسویں صدی میں نئی تاریخ رقم ہورہی تھی۔
ایشیاء، افریقا اور لاطینی امریکا میں قومی آزادی کی بے مثال تحریکیں تاریخ کے صفحات پر اپنے لہو سے لازوال داستانیں رقم کررہی تھیں اور ہزاروں سر فروش وطن کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ خوابوں کی اس حسین ترین بیسویں صدی نے جتنے عظیم اور انقلابی ہیرو اور رہنما پیدا کیے ان کی تعداد ، ماضی کی پوری انسانی تاریخ میں پیدا ہونے والے رہنماؤں کی مجموعی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔
نیلسن منڈیلا کا شمار نہ صرف بیسویں صدی بلکہ تاریخ کے عظیم ترین سیاسی رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جنوبی افریقا میں ماضی کی سفید فام نسل پرست حکومت کی امتیازی پالیسیوں کے بارے میں شاید بلکل ہی نہیں یا بہت کم علم رکھتی ہے۔
ہمارے بچوں کے نصاب کی کتابوں میں آزادی کی تحریکوں اور انقلابی رہنماؤں کا کوئی ذکر نہیں ملتا، انھیں یہ نہیں معلوم کہ محض چند دہائی پہلے تک یہ وہ جنوبی افریقا تھا جہاں سفید فام آقا اور غیر سفید فام غلام تھے جن سے زندگی کے ہر شعبے میں بد ترین امتیازی سلوک کیا جاتا تھا اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے۔ جنوبی افریقا کے دارالحکومت میں متروک پھانسی گھاٹ پر تعمیر شدہ ایک یادگار موجود ہے۔
صرف اس ایک پھانسی گھاٹ پر آزادی کے لیے لڑنے والے 130سے زائد بے گناہ سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا جب کہ پورے ملک میں یہ تعداد 3500 سے زیادہ تھی۔ جنوبی افریقا میں جب سفید فام اقلیتی حکومت ختم ہوئی تو پھانسی کی سزا کو ختم کرکے اس پھانسی گھاٹ کو بند کردیا گیا۔ بعد ازاں، اس جگہ کو عجائب گھر میں تبدیل کر کے یہاں آزادی کے گیت گاتے ہوئے پھانسی کے پھندوں پر جھول جانے والوں کی ایک یادگار بنا دی گئی۔
میں تو اسے اعزاز کی بات کہوں گی کہ اس عظیم رہنما نے 1999 میں پاکستان کا بھی دورہ کیا تھا۔ اس وقت میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ نیلسن منڈیلا کو پہلے اسلام آباد اور پھر وہاں سے قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر حاضری کے لیے کراچی آنا تھا لیکن انھوں نے براہ راست کراچی آ کر مزار پر حاضری دینے کو ترجیح دی کیونکہ جناح صاحب کئی بار جنوبی افریقا میں مظالم کے حوالے سے برطانیہ پر تنقید کر چکے تھے۔
نیلسن منڈیلا نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا تھا۔ انھوں نے جنوبی افریقا میں نسل پرست حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران پاکستان کی حمایت کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ملک میں جمہوریت کی بحالی کا خیر مقدم کیا اور انسانی حقوق کی اہمیت پر زور دیا تھا، انھوں نے تقریر کے اختتام پر خدا حافظ اردو میں کہا۔ افسوس کہ ان کے دورے کے فوراً بعد ہی ملک سے جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا۔
نیلسن منڈیلا کئی حوالوں سے ایک منفرد اور غیر معمولی سیاسی رہنما اور مدبر تھے۔ انھوں نے چوتھائی صدی سے زیادہ، انتہائی مشکل حالات میں جیل کاٹی لیکن ان کے اندر غصے اور انتقام کے جذبات کبھی پیدا نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ غصہ ایک ایسا زہر ہے جو دشمن کو نہیں بلکہ خود غصہ کرنے والے کو ہلاک کردیتا ہے، وہ 1994 میں ہونے والے اپنے ملک کے پہلے عام انتخابات میں صدر منتخب ہوئے اور پانچ سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے اپنے اور سیاہ فاموں اور رنگدار لوگوں کے خلاف بد ترین مظالم کرنے والوں کو معاف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے '' حقائق اور مفاہمت کا کمیشن'' قائم کیا تاکہ لوگ اپنے جرائم قبول کرتے ہوئے ایک دوسرے کو معاف کردیں اور مفاہمت ورواداری کے ایک نئے دورکا آغازکریں، انھوں نے اقتدار میں آتے ہی ایک مخلوط حکومت قائم کی جس میں سفید فاموں کو بھی پوری نمایندگی دی گئی اورکسی بھی فردکو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ '' یہ ہمارا تنوع نہیں جو ہمیں تقسیم کرتا ہے اور نہ نسل، زبان، مذہب اور ثقافت ہمارے اندر تقسیم پیدا کرتی ہے، ہم چونکہ آزادی حاصل کر چکے ہیں لہٰذا اب ہمارے اندر صرف ایک تقسیم موجود ہے، ایک وہ ہیں جنھیں جمہوریت عزیز ہے اور ایک وہ جو اسے نا پسند کرتے ہیں۔''
نیلسن منڈیلا نے اختلاف رائے کو ہمیشہ سود مند عمل قرار دیا۔ آج کے دور میں کہ جب اختلاف کوگناہ تصورکیا جانے لگا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں ان کی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ '' مجھے کھلے ذہن کے دوست پسند ہیں جو میرے اندر مسائل کوکئی پہلوؤں سے دیکھنے کا رجحان پیدا کرتے ہیں۔'' ہمارے سیاسی رہنما اور دانشور اس نکتے پر عمل کرنے کی کوششں کریں توکئی مسائل بہت جلد حل ہو سکتے ہیں۔
منڈیلا 1994 سے 1999 تک اپنے ملک کے صدر رہے، وہ چاہتے تو تاحیات اقتدار میں رہ سکتے تھے لیکن انھوں نے دوبارہ صدر نہ بن کر یہ ثابت کردیا کہ اپنے ملک کی آزادی، نسل پرستی کا خاتمہ اور جمہوریت کا قیام ان کی زندگی کا مشن تھا اور مشن کی تکمیل کے بعد ان کے نزدیک اقتدارکی کوئی وقعت نہیں تھی، جو رہنما عوام کی آزادی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردے اس کے لیے طاقت اور اختیار کوئی معنی نہیں رکھتا۔
نیلسن منڈیلا کی سب سے یاد گار وہ تقریر ہے جو انھوں نے 1964 میں بطور ملزم ایک عدالت میں کی تھی اور جس کا عنوان تھا ''میں مرنے کے لیے تیار ہوں۔'' اس اس مشہور تقریرکا اختتام اس طرح ہوتا ہے۔
'' میں نے اپنی پوری زندگی افریقی عوام کی اس جدوجہد کے لیے وقف کرچکا ہوں۔ میں نے سفید فام تسلط اور سیاہ فام تسلط کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ میں نے ایک ایسے جمہوری اور آزاد معاشرے کا خواب دیکھا ہے، جس میں تمام انسان یکساں مواقعوں کے ساتھ مل جل کر ہم آہنگی سے رہ سکیں۔ میں اس آدرش کے لیے زندہ رہنا اور اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں، اگر ضرورت ہو ئی تو اس آدرش کے لیے میں مرنے کو تیار ہوں۔''
جب تک انسان آزادی، مساوات، جمہوریت اور امن سے محروم اور پسماندگی واستحصال کا شکار رہیں گے، دنیا کو ہمیشہ ایک منڈیلا کی ضرورت رہے گی۔