قونیہ… دانش کدے سے حیرت کدے کا سفر
اقبالؒ اور رومیؒ دونوں کی شاعری میں حکمت کا رنگ نمایاں ہے۔ دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت کے قائل ہیں
ترکی کے شہر قونیہ میں عظیم صوفی بزرگ مولانا جلال الدین رومی ؒکے مزار پر حاضری زائر کے لیے بڑی یادگار حیثیت کی حامل ہے۔ پورا ماحول روحانیت کے حصار میں محسوس ہوتا ہے۔
اہل ترکی کہتے ہیں کہ جو مولانا رومؒ کے حضور حاضری کی غرض سے جائے تو اسے زندگی میں بار بار یہاں حاضری کا موقعہ ملتا ہے۔
مفکر پاکستان اور ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال، مولانا رومی کو اپنا مرشد کہتے تھے اقبال کا کہنا تھا کہ مولانا رومی کی شاعری اور فکر کا منبع قران پاک اور عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔ علامہ اقبال کے شاعری مجموعے بال جبریل کی ایک نظم میں جس کا عنوان پیر و مرید ہے ۔مولانا کو ''پیر رومی'' اور خود کو ''مرید ہندی'' قرار دیا ہے۔
علامہ محمد اقبال اور مولانا رومی کی اس نسبت نے زمان و مکان کے فاصلوں کو کم کر دیا ہے۔ مولانا رومی اور علامہ اقبال کی اس نسبت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ترکیہ کی حکومت نے سالہاسال پہلے مولانا جلال الدین رومی کے مزار کے احاطے میں علامہ محمد اقبال کی علامتی قبر بنوائی۔ قونیہ میں قیام کے دوران میں نے مولانا رومی کے مزار کے احاطے میں سنگ مرمر سے بنی ہوئی اس علامتی قبر کو بھی دیکھا۔ اس موقع پر مجھے مرزا غالب کا یہ شعر یاد آیا۔
سب کہاں کچھ گا لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مولانا جلال الدین محمد رومی نے 750 سال پہلے 66 سال کی عمر میں رحلت فرمائی لیکن وہ آج بھی ملت اسلامیہ کے لیے دانش اور رہنمائی کا منبع ہیں۔
قونیہ کا سفربذریعہ ٹرین ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ سلطنت روما کے زمانے میں اس شہر کو''اکونیم'' کہا جاتا تھا۔ یہ شہر سلجوقیوں، عیسائیوں، منگولوں اور کرامانیوں کے قبضے میں بھی رہا۔ 1420ء میں اسے عثمانیوں نے فتح کیا۔ ابن عربی (ممتاز صوفی و فقہی) نے بھی قونیہ میں کچھ وقت گزارا لیکن اس شہر کو ابدی شہرت حضرت جلال الدین رومیؒ کا مسکن رہنے کی وجہ سے ملی۔
مولانا رومی ؒ1207 میںقدیم بلخ میں پیداہوئے۔ ان کا سلسلہ نسب دسویں پشت میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓسے جا ملتا ہے۔ رومی ؒنے ابن عربی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا۔ آپ نے معرفت کی زبان استعمال کرتے ہوئے عقیدۂ وحدت الوجود کا مکمل فہم و ادراک حاصل کیا۔ آپ نے ایک نیا سلسلہ طریقت تشکیل کیا جس کا مقصد احیائے اسلام تھا۔ آپ کی تحریر کردہ ''مثنوی'' روحانی موضوعات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ابدی شہریت حاصل ہے۔
مولانا کی دوسری کتاب ''دیوان کبیر'' اعلیٰ درجے کی وجدانی کیفیت کا اظہار ہے۔ مولانا رومی ؒنے مثنوی میں احساسات اور خیالات کو لطیف اور سادہ انداز میں بیان کیا ہے تو دیوان کبیر کا ہر شعر گہرائی اور روحانی طلاطم لیے ہوئے ہے۔ دیوان کبیر مولانا رومیؒ کے روحانی اور وجدانی خیالات و تصورات ''فنا فی اللہ'' اور روحانی استغراق کے اسرار سمجھنے کی کنجی ہے۔
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے مولانا رومیؒ کے پیروکار خود کو ''جلالیہ'' کہتے ہیں۔ مولانا کا لقب جلال الدین تھا، اسی نسبت سے یہ سلسلہ جلالیہ مشہور ہوا۔حضرت شمس تبریز ؒ، مولانا رومؒ کے پیرومرشد تھے۔ مولانا رومؒ کی محفل علم سجی ہے۔ عقل و دانش کی باتیں ہو رہی ہیں، چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں اور فقہ و دین کی بحث چھڑی ہے۔ ایسے میں ایک دیوانہ، قلندرانہ شان سے چلا آتا ہے۔ یہ دیوانہ علمی مباحثے میں مداخلت کرتا ہے اور کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے معلم سے پوچھتا ہے، ''یہ کیاہے؟'' معلم کو اس درویش کی مداخلت ناگوار گزرتی ہے وہ کہتے ہیں''یہ وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔''
معلم یہ کہہ کے اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ درویش کی انگلی کی اک جنبش سے علم کا خزانہ نذرِ آتش ہو جاتا ہے۔ معلم حیرا ن وپریشان بے ساختہ پکار اْٹھتاہے۔ ''یہ کیاہے؟'' درویش ادائے بے نیازی سے جواب دیتاہے، ''یہ وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔'' اتنا کہہ کے وہ اپنی راہ لیتا ہے اور معلم کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ کیسا علم، کہاں کی دانش؟ وہ دانائی اور عقل سے کنارہ کش ہوتا ہے اور اسی درویش کی تلاش میں صحرانوردی اختیارکرتا ہے۔ دانش کدے سے حیرت کدے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ معلم کوئی اور نہیں مولانا جلال الدین رومیؒ تھے اور وہ بزرگ اور درویش پیر و مرشد شمس تبریزؒ تھے۔
مولانا رومیؒ کا طرز زندگی فقیر کے ایک اشارے سے یکسر بدل گیا۔ بیشتر وقت مجاہدے و ریاضت میں گزرنے لگا۔ ایک روز ایسے ہی عالم میں خود سے غافل تھے، بیگانگی کے عالم میں اْٹھ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی اس سکری حالت کی اتباع ان کے مرید بھی کرنے لگے۔ ان کی یاد میں کیے جانے والے اس رقص کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان سے شاہ بو علی قلندر پانی پتیؒ بھی مولانا کی صحبت میں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ''قلندریہ'' مولانا رومیؒ سے منسوب کیا جاتا ہے۔
ایک ترک دانشور کے مطابق مولانا رومیؒ کے کلام میں تغزل بھی ہے، موسیقیت بھی، غنائیت بھی ہے، داخلیت بھی ہے اور خارجیت بھی، وحدت کا اظہار بھی ہے اور عشقِ نبویﷺ کا پرچار بھی۔ زبان کی شستگی اور بیان کی سادگی نے انھیں اپنے دور کے شعرا میں بھی ممتاز رکھا ۔
صحبتِ صالح تْرا صالح کْند
صحبتِ طالح تْرا طالح کند
اقبالؒ اور رومیؒ دونوں کی شاعری میں حکمت کا رنگ نمایاں ہے۔ دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت کے قائل ہیں۔ دونوں کی شاعری میں سوز وگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ قرآنی واقعات کا حوالہ ہے، اللہ اور نبی کریمﷺ سے محبت کا اظہار ہے۔ دونوں کا کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔