خال کا دردانہ
اب تک پشتو ادب میں جتنی بھی خواتین نے نام پیدا کیاہے، اس سب کامیدان ایک ہی تھا
جن دنوں باچاخان کی تحریک خدائی خدمت گار زوروں پر تھی تو تحریک اور باچاخان کے بارے میں بہت سے نغمے، گیت اور ترانے بھی مشہور ہوگئے تھے جن میں ایک ٹپہ یہ تھاکہ
کہ دہ زلمو نہ پورہ نہ شوہ
فخر افغانہ جینکیٔ بہ دے گٹینہ
ترجمہ، اگرنوجوانوں سے پورا نہ ہوسکا تو اے فخر افغان لڑکیاں تمہیں جتائیں گی۔
یہ ٹپہ آج ہمیں اس لیے یاد کہ ہمارے سامنے اس وقت ایک خوبصورت پشتو مجلہ پڑا ہواہے، مجلے کانام ''دردانے'' یعنی جواہر پارے ہے اورمکمل طورپر خواتین کا مجلہ ہے ،یہ اس کاپانچواں خاص نمبرہے جوہزارہ کی خواتین لکھنے والیوں کے بارے میں ہے، لکھنے والیاں بھی ہزارہ کی ہیں اورموضوعات بھی ہزارہ میں پشتو ادب اورہزارہ کی ادبیات ہیں، اسے بلاشبہ ایک تحقیقی کارنامہ قرار دیاجاسکتاہے کیوں کہ اس میں پاکستان بننے سے پہلے کے پشتو ادب کاجائزہ لیاگیا ہے۔
اسماعیل گوہر اپنے مضمون ''ہزارہ میں زنانہ ادب'' میں رقم طرازہیں کہ اٹھارہ سو پچاس کے لگ بھگ ٹاکوٹ کا ایک سکھ شاعر گزرا ہے ، سندر داس، اس کی بیوی مکھنی داس بھی پشتو کی شاعرہ تھی، اس خاندان میں ''سوکیا''نام کا شاعر بھی گزراہے جس کاایک نعتیہ کلام مشہور متشرق ڈارمیٹر نے اسی کتاب ''ہاروبہار'' میں نقل کیاہے جو اس طرح ہے۔
جانتا ہوں کہ ہندوستان جا رہا ہے
میری آغوش سے جانان جا رہا ہے
اس کے بعد اسماعیل گوہر نے ہزارہ میں پشتو نسائی ادب کاتفصیلی جائزہ پیش کیاہے۔
اس میں حیرت اورخوشی کی ایک بات تو یہ ہے کہ مجلہ دیر کے ایک مقام ''خال'' سے نکالاگیاہے اورخاص نمبرکا موضوع ہزارہ کاادب اورخاص طور پر نسائی ادب یعنی دونوں مقامات بڑے بڑے شہروں سے دور اورکسی حد تک پسماندہ ہے جب کہ خواتین کی سرگرمیاں شہروں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔
خال میں خواتین کی تنظیم کا ہونا بجائے خود ایک حیران کن بات ہے کیوںکہ خال لوئردیر کاایک قصبہ ہے، ایک تو خال کا نام اچھا خاصا رومانوی نام ہے کیوں کہ وہی خال ہے جسے اردو میں ''تل'' کہتے ہیں اور اردو، فارسی، پشتو کے علاوہ اور بھی کئی زبانوں میں شعرا کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، فارسی میں تو حافظ شیزاری نے اسے بہت برتا ہے ۔
اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل مارا
بہ خال ہندوش بخشم سمرقند وبخارا را
کہتے ہیں جب تیمورلنگ شیرازآیا تو اس نے حافظ شیرازی کو بلاکرکہا کہ دس ہزار اشرفیاں نذرگزارو ، پھٹے حال حافظ نے کہا کہاں میں نیستی کا ماراکنگال شاعر اورکہاں دس ہزاراشرفیاں؟ اس پر تیمور نے اس کی ہنسی اڑاتے ہوئے کہا، حالت تو یہ ہے اور ایک ''تل'' پر سمرقند وبخارا بخش رہے ہو، حافظ نے کہا حضور اسی سخاوت کی وجہ سے ہی تو یہ حال ہے ۔لیکن یہ محض افسانہ ہے ، تیمورحافظ سے پہلے گزرا تھا اورحافظ کے زمانے میں تیمورکا بیٹا شاہ شجاع حکمران تھا ۔
سحر زہاتف غیبم رسید مژدہ بگوش
کہ دورشاہ شجاع است مے دلیر بنوش
بات''خال'' کی ہورہی ہے جو پہاڑکی ترائی میں ایک خوبصورت گائوں بلکہ قصبہ ہے شاید دیر کے علاقے کا ''تل'' سمجھ کر کسی نے یہ نام رکھا ہو، پنجابی میں بھی خال سیاہ کو سراہا گیاہے ۔
ترے مکھڑے تے کالا کالا تل وے
منڈیا سیال کوٹیا
پشتو میں تو مصنوعی خال بھی رکھے جاتے ہیں اس لیے شاعری میں اس کامقام ایک ''ہیرے''کی طرح ہے۔
مدار نقطہ بینش زخال نست مرا
کہ قدر گوہر یک دانہ جوہری داند
''خال'' میں خواتین کی اس بے مثل سرگرمی کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ٹوپیوں کی صنعت کی وجہ سے یہاں کی خواتین زیادہ تر مالی طور پر خود کفیل ہیں اور روزگار کی طرف دھیان بھی ہے۔لیکن سب سے زیادہ خاص وجہ تو ہم نے بتائی ہی نہیں ہے کہ اس لشکر کی سپہ سالار کلثوم زیب بھی ایک باکمال سرگرم اور منفرد خاتون ہیں۔
اب تک پشتو ادب میں جتنی بھی خواتین نے نام پیدا کیاہے، اس سب کامیدان ایک ہی تھا شاعری یا اکادکا افسانہ نگار خواتین ہی قابل ذکر ہیں لیکن کلثوم زیب ہمہ جہت ادیبہ ہیں بلکہ وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے علم، تحقیق اور تاریخ کواپنا موضوع بنایا ہے اوراس سلسلے میں قابل ذکرکام کیا ،ناول اور افسانے بھی لکھے ہیں اورلکھ رہی ہیں، چندمعروف ناول ترجمہ بھی کیے ہیں گویا مقدار اورمعیار دونوں کے لحاظ سے کلثوم زیب کاکام سراہنے کے لائق ہے ، اس کارنامے کاسہرا بھی کلثوم زیب کے سرجاتاہے کہ انھوں نے پہلی بار خواتین کو ''نثر آشنا'' اور علم آشنا کیاہواہے۔
مختلف موضوعات پر ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں اورکئی آرہی ہیں ،وہ ایک طرح سے خواتین کی ادبی تنظیموں کی زنجیر ہیں جو سب کو اپنے آپ میں پروکر سرگرم کیے ہوئے ہے، وہ ان لوگوں میں سے ہیں کہ ڈھنڈورا نہیں پیٹتیں بلکہ کام کرتی ہیں ، اکبرالہ آبادی نے سرسید احمد خان کی وفات پر کہاتھا کہ
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا