محترم سیٹھ عقیل کے بیٹے کے نام
یہاں یہ بھی سوال ذہن میں پنپتا ہے کہ جناب یہ درندگی ‘ کیا صرف ایک جامعہ تک محدود ہے
نوے کی دہائی کے ابتدائی تین برس بہاولپور میں گزارے۔ سول سروس میں یہ میری شروع شروع کی پوسٹنگ تھی۔ قطعاً بہاولپور شہر کا اندازہ نہیں تھا۔ شروع شروع میں تو شہر اور اس کے باسی بالکل اجنبی سے لگے۔ مگر حد درجہ کم وقت میں شہر کے سحر کا اسیر ہو گیا۔
نواز شریف اس وقت کے وزیراعظم تھے۔ انھیں بہاولپور سے بہت انس تھا۔ اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ بطور انتظامی افسر انھیں حد درجہ خوش اخلاق اور انسان دوست شخص پایا۔ ایک دن انھیں شہر میں سائیکل رکشہ نظر آیا۔ یہ انسان کو انسان کے کھینچنے کا ایک ظالمانہ طرز تھا۔
وزیراعظم نے اس بہیمانہ کاروبار کو تدبیر سے ختم کیا۔ سائیکل رکشہ کے مالکان کو ریڑھی' چھوٹی سی دکان یا ییلو کیب دینے کی ایک جامع اسکیم ترتیب دی گئی۔
ییلوکیب اسکیم پہلے سے جاری تھی مگر اس کو غریب ترین لوگوں تک لے جانے کا عزم صرف نواز شریف کے پاس تھا۔ جب وزیراعظم کا ذاتی رویہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے کا ہو تو ضلعی انتظامیہ میں یک دم اعتماد آ جاتا ہے۔
ییلو کیب گاڑیاں ' کراچی کی بندرگاہ سے آتی تھیں۔ اس کی تمام ذمے داری سیٹھ عقیل کے ذمہ تھی۔ سیٹھ صاحب سے سرکاری ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ بہت جلد ذاتی دوستی میں تبدیل ہو گئیں۔ عقیل صاحب ' حد درجہ محنتی اور خوشبودار انسان تھے۔ اکثر یہ ہوتا تھا کہ شام کو سرکاری رہائش گاہ آ جاتے تھے۔ گپیں لگتی تھیں۔ بعد میں ' سیٹھ عقیل مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے۔
بہاولپور شہر سے ایم این اے منتخب ہوتے رہے۔ مدت پوری کرنے کے بعد پوسٹنگ لاہور ہو گئی۔ سیٹھ صاحب سے رابطہ برقرار رہا۔ سیاسی میدان میں اتنے صاف ستھرے انسان حد درجہ کم ہیں۔ خیر فوت ہو گئے۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
عرض کرتا چلوں کہ پنجاب کے گورنر ' بلیغ الرحمن' عقیل صاحب کے بیٹے ہیں۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ بلیغ الرحمن حد درجہ پڑھے لکھے اور سنجیدہ انسان ہیں۔ مگر اس کالم میں ان کا ذکر ' ایک ظلم کی وجہ سے کیا ہے۔
شاید ایک نیک والد کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے وہ بھی حد درجہ سنگین واقعہ کی مظلوم طالبات کی مدد کر سکیں۔ چند دن پہلے ' بہاولپور کے ایک پولیس اسٹیشن ' بغداد الجدید کے عملہ نے ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو وہ رکی نہیں ۔ بلکہ وہاں سے فرار ہو نے کی بھرپور کاوش کی۔ پیچھا کرنے پر کار کو زبردستی روکا گیا۔اس میں ایک شخص اور ایک لڑکی موجود تھے۔
آگے دل تھام کر سنیے' کہ معاملہ کیا نکلا۔ کار چلانے والے نے اپنا تعارف میجر (ر) اعجاز شاہ بتایا اور اس کے ساتھ اسلامیہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ موجود تھی۔ گاڑی کی تلاشی لینے پر آئس جو کہ منشیات میں ام الخبائث کا درجہ رکھتی تھی' برآمد کی گئی۔
ساتھ ہی جنسی ادویات بھی تھیں۔ معاملات اگر صرف یہیں تک ہوتے تو شائد کالم لکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ مگر آگے بات کرتے ہوئے دل زخمی ہوتا ہے۔
سکیورٹی آفیسرکے دو موبائل فونز سے خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق پانچ ہزار سے زیادہ خواتین اس ظلم کا نشانہ بنیں۔ مبینہ طور پر ملزم ' طالبات کو امتحان میں پاس کروانے کا لالچ دے کر بلیک میل کرتا تھا۔ ساتھ ساتھ ویڈیو بنانے کا بھی پورا نظام موجود تھا۔ انسانی ذہن شل ہو جاتا ہے۔
صرف یہ سوچ کر ' کہ ہماری درسگاہوں میں اصل صورت حال کتنی خوفناک ہے۔ مگر سوچیے۔ اعجاز شاہ طالبات کو پاس کرواتا تھا' اس کا واضح مطلب ہے کہ جو اساتذہ انھیں پاس یا فیل کرتے تھے وہ بھی اس نیٹ ورک کا حصہ ہو سکتے ہیں؟ بلکہ سوفیصد ہوں گے۔
کیونکہ چیف سکیورٹی آفسر ' بذات خود تو کسی امتحانی پرچے میں نمبر نہیں لگاتا تھا۔ پانچ ہزار سے زائد ویڈیوز اور تصاویر کوئی ایک دو سال کا شاخسانہ تو نہیں ہو سکتا۔خاصے عرصے سے بلیک میلنگ کا یہ دھندہ جاری تھا۔
بات اتنی المناک ہے کہ میرا قلم لکھتے ہوئے لرز رہا ہے۔ سکیورٹی افسر کیا اکیلا یہ کام کر رہا تھا؟ نہیں صاحب۔ یہ پورا ایک گینگ ہے' معلوم نہیں ان ظالموں نے کیا کیا گل کھلائے ہونگے۔ مگر کیا اس واقعہ میں یونیورسٹی کی اعلیٰ سطح کی انتظامیہ کو بری الزمہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے کہ آپ کی موجودگی میں تعلیمی ادارے میں قیامت برپا ہوتی رہی اور آپ سرخاب کے پر لگائے غافل رہے۔
یقین سے تو خیر کچھ بھی کہنا اس ابتدائی وقت میں ممکن نہیںلیکن یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ کو لاپروائی کی سزا تو ہونی چاہیے۔ ابتدائی تحقیقات کے حساب سے اس قبیح فعل میں کون کون ملوث ہے۔ ان تمام لوگوں کے نام بہت قلیل عرصے میں سب کے سامنے آ ہی جائیں گے۔
انتظامی لحاظ سے عرض کر رہا ہوں کہ یونیورسٹی کے تمام حکام کو اس کیس میں شامل تفتیش ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کا انتہائی سنگین سکینڈل ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خواتین کی ویڈیوڈارک ویب پر فروخت کر دی گئی ہوں۔
خدارا' غور فرمائیے کہ یہ غلیظ کام کتنے دھڑلے سے جاری و ساری رہا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ یہ تو بہاولپور کی پولیس کی حد درجہ فرض شناسی ہے کہ اس گینگ کے ایک کردار کو گرفتار کیا اور قیامت خیزواقعات کو سامنے لے کر آئے۔
اب سیٹھ عقیل کے صاحبزادے سے مخاطب ہوں۔ بلیغ الرحمن صاحب ۔ آپ پنجاب کے گورنر ہیں، غیر ملکی تعلیم یافتہ ہیں، صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔
بہاولپور کے باسی ہونے کی بدولت آپ خود تمام معاملات کو دیکھیں۔ کیا آئی جی اور چیف سیکریٹری کو یہ حکم نہیں دیاجا سکتا کہ بہاولپور جاؤ اور معاملے کی شفاف تحقیقات کرو۔ چیف سیکیورٹی آفیسر کو تعینات کرانے والے کردار کو تفتیش میں شامل نہیں ہونا چاہیے؟ معلوم ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ حد درجہ متحرک ہیں۔
وہ ہر بات قرینے سے حل کرنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کا تعلق تو وسطی پنجاب سے ہے' بہاولپور سے تو ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ بلیغ صاحب! آپ تو فرزند بہاولپور ہیں'وہاں کے موثر ترین سیاست دان ہیں۔ آپ کا فرض کسی بھی سرکاری عمال کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
آپ اس یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔ یعنی آپ اس جامعہ کے مائی باپ ہونے کی بدولت تمام معاملات کی غیر جانبدارانہ تحقیق کروا سکتے ہیں۔ بلکہ کچھ دنوں کے لیے اپنے آبائی شہر چلے جائیں تو خود بخود تمام معاملات کھل کر سامنے آ جائیں گے۔ یہ کوئی معمولی سکینڈل نہیں ہے۔
ویسے ایک بات سمجھ نہیں آتی ۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم' جو ہر بات پرنوٹس لیتے ہیں اور پھر میڈیا پر ٹیکر چلواتے ہیں۔ ان جیسے محنتی انسان نے اب تک اس اندوہناک واقعہ پر قیامت کیوں نہیں برپا کی۔ سڑکوں کا افتتاح ضرور کریں' یہ بھی بہترین کام ہے۔ مگر بہاولپور یونیورسٹی جیسے واقعات کی کھوج لگانا بھی آپ ہی کا فرض ہے۔
یہاں یہ بھی سوال ذہن میں پنپتا ہے کہ جناب یہ درندگی ' کیا صرف ایک جامعہ تک محدود ہے۔ ممکنہ طور پر ' اس طرز کے قبیح کام ' بہت سے تعلیمی اداروں میں ہو رہے ہونگے۔ محترم وزیراعظم صاحب' فوری طور پر احکامات جاری کریں۔ خفیہ اداروں ' پولیس اور دیگر ریاستی اداروں کو متحرک کیجیے ۔ آپ کو تو پورا ملک دیکھنا ہے۔
پوری طرح چھان بین فرمائیے۔ اس گروہ کے خلاف کھڑے ہوں' سول سوسائٹی' این جی اوز سے بھی درخواست ہے کہ اس انسانی المیہ پر آواز اٹھائیں۔ ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو پھر کون یہ کام کرے گا؟ پر قرعہ فال پھر ' سیٹھ عقیل کے بیٹے بلیغ الرحمن پر نکلتا ہے کہ وہ حد درجہ غیر جذباتی اور ٹھوس اقدام اٹھائیں۔ اصل ملزموں تک پہنچیں۔ جامعہ کی اعلیٰ انتظامیہ کو بھی تفتیش کی چھلنی سے گزاریں۔ سچ کبھی چھپ نہیں سکتا اور چھپنا بھی نہیں چاہیے۔
بلیغ صاحب! شائد قدرت نے آپ کو گورنر بنایا ہی اس لیے ہے کہ اس گینگ کا خاتمہ آپ کے ہاتھ ہونا ہے۔