کاش ہمارے حکمران بھی ایسا کر سکیں
اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے والے ہمارے ہر حکمران نے واقعی مملکتِ خداداد کو ’’عظیم تجربہ گاہ‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے
دُنیا کا ہر سنجیدہ ، عقلمند اور موقع شناس حکمران اپنے ملک اورعوام کی بہتری ، مفادات اور استحکام کے لیے نئے نئے مواقع (Opportunities) اور نئے نئے معاشی راستوں (Avenues) کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اکثر اوقات وہ اپنی تلاش میں کامیاب و کامران بھی ہو جاتے ہیں۔ نئے معاشی مواقع کی تلاش میں برطانیہ کی ایک تجارتی کمپنی نے تو پورے مغلیہ ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب کہ ہمارے ہمہ قسم کے حکمرانوں کے نجی اور ذاتی مفادات اتنے زیادہ ہیں کہ اُنہیں اپنے ملک اور اپنے بد قسمت عوام کی بہبود اور بھلائی کی سرے سے فکر ہی نہیں ۔ پچھلے ساڑھے سات عشروں کے دوران ہمارے ہمہ قسم کے حکمرانوں نے ملک اور عوام پر متنوع تجربات کیے ہیں۔
بانیِ پاکستان نے کبھی ارشاد فرمایا تھا کہ نئی مملکت ہماری تجربہ گاہ ہوگی۔ پاکستان میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے والے ہمارے ہر حکمران نے واقعی مملکتِ خداداد کو ''عظیم تجربہ گاہ'' بنا کر رکھ دیا ہے ۔
کبھی یہاں صدارتی نظام نافذ کیا گیا اور کبھی بندوق کے زور سے پارلیمانی نظام کا بوریا بستر لپیٹ کر آمرانہ حکومت قائم کر دی گئی ، کبھی عوام کو یہاں روٹی ، کپڑا اور مکان کالالچ دیا گیا اور کبھی کسی نے عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہُوئے تنفیذ ِ نظام مصطفی کا نعرہ بلند کیا اور 11برس اقتدارکے مزے اُڑائے گئے ۔
اور کبھی کسی نے ''تبدیلی'' کا تجربہ کرکے عوامی جذبات سے کھیلنے کا گھناؤنا کاروبار کیا اور کبھی اِس ملک میں ''ریاستِ مدینہ'' کا خواب دکھایا گیا ۔ ہمہ قسم کے ہمارے اِن حکمرانوں کے یہ تمام تجربات بُری طرح ناکام ہُوئے ۔ وجہ یہ تھی کہ یہ حکمران بد نیت تھے ۔ انھیں اپنے ملک اور عوام کی بہبود سے کہیں زیادہ اپنے نجی، ادارہ جاتی اور گروہی مفادات زیادہ عزیز اور محبوب تھے۔
دیگر ممالک کے حکمرانوں کو اقتدار سنبھالتے ہی مگر یہ فکر کھانا شروع کر دیتی ہے کہ اپنے ملک اور عوام کے حالات کیسے بہتر اور مضبوط بنائیں؟ ایسے تازہ ترین مناظر ہم نے جولائی2023ء کے مہینے میں بھی ملاحظہ کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ماہِ جولائی میں ایرانی صدر ، ابراہیم رئیسی ، نے افریقی ممالک کا دَورہ کیا ہے ۔
ابھی وہ لاطینی امریکا کے تین ممالک ( وینزویلا، کیوبا اور نکاراگووا)کے کامیاب دَورے سے واپس آئے ہی تھے کہ تین افریقی ممالک (کینیا، زمبابوے اور یوگنڈا) کے دَورے پر نکل کھڑے ہُوئے ۔ جب سے امریکا نے ظلم و زیادتی کرتے ہُوئے ایران پر متنوع ظالمانہ پابندیاں عائد کی ہیں، ایرانی قیادت نے جرأت و استقامت سے امریکی پابندیوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔
تہران میں بیٹھے مذہبی حکمران امریکا کے سامنے جھکنے کی بجائے، حکمت کے ساتھ ، نئے عالمی مواقع اور نئے اقتصادی مفادات کے حصول کے لیے نئے نئے دوست بنانے کی کوشش کرتے رہے ۔ ایرانی صدر کے کینیا ، زمبابوے ، یوگنڈا، نکارا گووا، کیوبا اور وینزویلا کے دَورے اِسی ضمن میں تھے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نصر کنعانی، نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ '' افریقی ممالک کے یہ دَورے ایران کو معاشی ، سفارتی ، تجارتی اور سیاسی میدانوں میں نئے مواقع ڈھونڈنے میں اساسی کردار ادا کریں گے ''۔ بھارتی وزیر اعظم، نریندر مودی، نے بھی جولائی2023ء کے دوسرے ہفتے فرانس کا دَورہ کیا۔ پیرس میں اُن کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اور یوں وہ فرانس سے جنگی آبدوزیں اور جنگی جہاز خریدنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
معاشی اور عسکری اعتبار سے امریکا ایسا ملک بھی ہمہ وقت نئے مواقع اور نئے مفادات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ۔ مثال کے طور پر جولائی2023ء ہی میں امریکی صدر ، جو بائیڈن ،نے ہنگامی طور پر کئی یورپی ممالک کا دَورہ کیا ہے۔
اُن کا پہلا پڑاؤ برطانیہ میں تھا جہاں وہ ایشیائی نژاد برطانوی وزیر اعظم ، رِشی سونک، سے بھی ملے اور برطانوی بادشاہ چارلس سوم سے بھی۔ برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے جو بائیڈن نے کہا: '' اگرچہ برطانیہ سے امریکا کے ہر قسم کے تعلقات ٹھوس چٹان کی طرح مضبوط ہیں، پھر بھی نئے حالات میں برطانوی وزیر اعظم ، رِشی سونک، سے مفصل ملاقات از بس ضروری تھی۔''برطانیہ کے بعد جو بائیڈن ہلسنکی اور لتھوانیا گئے۔
وہاں جانے کا مقصد یہ تھا کہ فِن لینڈ اور سویڈن کو ''ناٹو'' اتحاد میں شامل کرنے کی با ثمر کوششیں کی جائیں۔
اِس دَورے کا دوسرا بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ یوکرائن کو بھی ''ناٹو'' میں شامل کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔مغربی ممالک میں امریکی صدر نئے عسکری اتحاد اور اقتصادی مواقع کی تلاش میں ہیں ۔ اپنے عالمی مقاصد کے حصول کے لیے وہ ترکیہ کے صدر، طیب ایردوان، پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ سویڈن کو ''ناٹو'' میں شامل کیے جانے کی کوششوں کی مخالفت ترک کر دیں ۔
ممکن ہے طیب ایردوان اپنے قومی مفادات کے پیشِ نظر امریکی صدر کی خواہش مان جائیں۔ طیب ایردوان مگر اتنی آسانی سے امریکی مفادات کا ہدف نہیں بن سکتے۔ وہ امریکی مفادات پورے کرنے سے قبل ترکیہ کے لیے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔
جب سے سویڈن میں قرآن مجید کی بیحرمتی کا قابلِ مذمت سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہے ، ترکیہ کی جانب سے سویڈن کے ''ناٹو'' میں شامل کیے جانے کی مخالفت بڑھ گئی ہے ۔ طیب ایردوان کی زیر قیادت ترکیہ کی یہ شرط بھی سامنے آئی ہے کہ اگر سویڈن کو ''ناٹو'' میں شامل کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو ترکیہ کو یورپی یونین میں شامل کرنا ہوگا ۔ ترکیہ کی یہ دیرینہ آرزُو ہے۔ یورپی یونین ترکیہ کو رکنیت دینے میں سخت مزاحم ہے۔
10جولائی2023ء کو ''الجزیرہ'' نے لکھا کہ ''پچھلے 50برسوں سے ترکیہ اپنے لیے یورپی یونین کے دروازے کھلنے کا منتظر ہے۔'' طیب ایردوان کو یہ احساس بھی کھائے جارہا ہے کہ ترکیہ کی معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں اِس کی کرنسی ( لیرا) کی قدر روز بروز گھٹتی اور گرتی جا رہی ہے ۔ اِسی وجہ سے ترکیہ میں مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ۔ طیب ایردوان کے دوسری بار صدر منتخب ہونے کے باوجود ترکیہ کی اقتصادی حالت سنبھل نہیں رہی ۔
اِن حالات کے پیشِ نظر طیب ایردوان نے فوری طور پر جولائی2023ء میں تین اہم ترین عرب ممالک ( سعودی عرب، قطر اور یو اے ای) کا دَورہ کرنے کو ترجیح دی ۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران دونوںممالک کی ٹریڈ 40ارب ڈالر تک بڑھا دی جائیگی ۔
قطر بھی ترکیہ میں 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے ۔ اور سعودی عرب، قطر اور یو اے ای نے ترکیہ کے مرکزی بینک میں کئی ارب ڈالرز جمع کروائے ہیں تاکہ ترکیہ اکانومی اور لیرا کو فوری طور پر سنبھالا ملے ۔
سعودی عرب کے دَورے میں طیب ایردوان نے سعودی ولی عہد، شہزادہ محمد بن سلمان، کو Toggنامی الیکٹرک کار بطورِ تحفہ پیش کی۔ یہ کار مکمل طور پر ترکیہ ساختہ ہے ۔یہ گاڑی پیش کرکے ترکیہ صدر نے دراصل مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ملک کی گاڑی کی مارکیٹنگ بھی کی ہے ۔ رواں جولائی میں ابراہیم رئیسی ، جو بائیڈن، نریندر مودی اور طیب ایردوان کے یہ غیر ملکی دَورے ہمارے حکمرانوںکے لیے بھی ایک درس ہیں ۔