غریب عوام کا دکھ صرف زبانی و کلامی
حکومت نے توعالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ سائن ہونے کے بعد سکھ اورچین کا سانس لے لیاہے لیکن عوام کا سکھ وچین چھین لیا ہے
ویسے تو ہمارے حکمران اُٹھتے بیٹھتے شب و روز اس ملک کے غریب عوام کے دکھوں اور غموں کا احساس کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن عملاً اُن کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔
اپنے پندرہ ماہ کے دور اقتدار میں اُنہوں نے IMF کی شرائط کی آڑ میں بے تحاشہ مہنگائی کا بوجھ غریب عوام کے سروں پر لاد دیا ہے۔
صرف ایک دو ارب ڈالر کے حصول کے لیے اُنہوں لوگوں کی ضروریات زندگی کی ہر شے نہ صرف مہنگی کر دی ہے بلکہ دگنی اور تگنی کر دی ہے۔IMF سے جب معاہدہ سائن نہیں بھی ہوا تھا تو تب بھی اور جب سائن ہوچکا تو اب بھی عوام پر مہنگائی کے بم اور تیزی کے ساتھ گرا رہے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں اُن کی یہ حکومت بھی ختم ہونے والی مگر جاتے جاتے بھی وہ کوئی کسر اُٹھا رکھنا نہیں چاہتے۔
صرف اس ایک ہفتے میں اُنہوں نے دو بار بجلی کے دام بڑھا دیے ہیں۔ پہلے ایک دو روپے فی یونٹ دام بڑھائے جاتے تھے لیکن اب تو یکدم پانچ اور سات روپے فی یونٹ دام بڑھائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی غربت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ڈومیسٹک استعمال کی بجلی جب 53 روپے یونٹ ہے تو کمرشل بجلی کس دام میں ہوگی۔
اب کوئی صاحب علم شخص ہمیں یہ بتادے کہ اس ریٹ پر ہمارے کارخانوں اور فیکٹریوں میں بننے والی اشیاء عالمی مارکیٹوں میں کیسے مقابلہ کر پائیں گی اور کس طرح ہماری ایکسپورٹ بڑھ پائیں گی۔ ویسے بھی جنوبی ایشیاء کے اس خطہ میں ہماری ایکسپورٹ سب سے کم ہے۔ پھر بھلا ہم کس طرح دنیا کے دیگر ممالک کا مقابلہ کر پائیں گے۔
ہمارا ملک دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بجلی کے بل میں مختلف ٹیکسوں کی اتنی بھرمار ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ حکومت نے اس بل میں PTV اور ریڈیو کی فیس بھی شامل کر دی ہے۔ اس کے علاوہ شام کو بجلی استعمال کرنے کے چارجز مزید مہنگے ہیں۔
پہلے پیک آور شام چھ بجے سے رات دس بجے تک ہوا کرتے تھے ، ہماری اس مہربان حکومت نے اس وقت کو مزید بڑھا کر اب شام پانچ بجے سے رات گیارہ بجے تک کردیا ہے۔ اب بھلا بتایئے بجلی استعمال کرنے کا اصل وقت تو یہی ہوتا ہے اور حکومت نے اسے بھی 53 روپے سے بڑھا کر نجانے کہاں پہنچا دیے ہیں۔ پھر فیول ایڈجسٹمنٹ کے بہانے ہر ماہ پچھلے بلوں پر عائد اضافی رقم بھی وصول کی جا رہی ہے۔
ایسے میں عوام اس حکومت پر تنقید نہ کریں تو کیا کریں۔ یہ آئے تھے تو یہ کہہ کر کہ پچھلی حکومت نے مہنگائی کر کے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے لیکن راحت پہنچانے کی بجائے اس حکومت نے تو عوام کا جینا اور بھی دوبھر کردیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے میں وہ توقع کر رہی ہے کہ عوام اگلے الیکشن میں اسے ووٹ دے کر پھر حق حکمرانی عطا فرما دیں گے۔ ہمارا ہرگز خیال نہیں ہے کہ عوام ایسی غلطی پھر کریں گے۔
اس حکومت نے عوام کو دیا ہی کیا ہے۔ ایسا کونسا ریلیف ہے جو اس حکومت کی اعلیٰ کارکردگی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس حکومت نے تو کوئی شے بھی سستی نہیں چھوڑی، بلکہ پچھلی حکومت کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
2017 ء میں ملنے والا آٹا اگر 35 روپے تھا جو PTI کی حکومت کے چار سالوں میں 80 روپے کر دیا گیا تھا وہ اب اس پندرہ ماہ کی حکومت میں 160 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اسی طرح چینی جو ان کے برسراقتدار آنے سے قبل 90 روپے فی کلو مل رہی تھی وہ ان کے عوام دوست دور حکومت میں 150 روپے فی کلو ہوچکی ہے۔ یہ سلسلہ نجانے کہاں رک پائے گا، کسی کو پتا نہیں، ان کے بعد جو بھی حکومت آئے گی وہ اپنا کھاتہ پھر نئے سرے سے کھولے گی۔
عوام کو کسی بھی حکومت سے اچھے کی توقع نہیں ہے۔ اگلے الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے پر بھی ہمارے لوگوں کو شکوک و شبہات ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ اگلی حکومت ایک ہنگ پارلیمنٹ کی شکل میں معرض وجود میں آئے گی، کسی ایک پارٹی کو واضح برتری ملنا بہت مشکل ہے۔
PTI اب ایک نہیں تین تین بن چکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں نئی حکومت کی تشکیل میں اہم رول بھی ادا کریں گی اور ایک بارگیننگ پوزیشن اختیار کر کے اپنے جائز حق سے زیادہ بھی وصول کریں گی۔ جس طرح مسلم لیگ ق نے دس سیٹوں پر پنجاب کی پچھلی حکومت بنا لی تھی، اسی طرح چھ سات سیٹوں والی جماعتیں نئی وفاقی حکومت کے بنانے میں بلیک میلنگ کرسکتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی غریب عوام پر بجلی کے بم گرانے کی۔ سمجھ نہیں آتا کہ ایک طرف حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ہم نے IMF کی تمام شرائط من و عن تسلیم کر لی ہیں پھر معاہدہ ہوجانے کے بعد بھی بجلی کے دام کیوں بڑھائے جا رہے ہیں۔
یہ سلسلہ کب اور کہاں جا کے رکے گا، کوئی بتانے والا بھی نہیں ہے۔ ہر تھوڑے دنوں بعد مختلف ٹیکس لگا کر بظاہر IMF کی ڈیمانڈ پوری کی جا رہی ہے اور پٹرول پر لیوی سمیت بجلی کے نرخ بڑھاکر عوام کو یہ باور کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ IMF کی شرائط کی وجہ سے ہے۔
حکومت نے تو عالمی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ سائن ہونے کے بعد سکھ اور چین کا سانس لے لیا ہے لیکن عوام کا سکھ و چین چھین لیا ہے۔ روپے کی قیمت کے استحکام کے دعوے چند دن سے بھی زیادہ قائم نہیں رہ سکے اور ڈالر پھر سے مہنگا ہوچکا ہے۔ 285روپے میں ایک ڈالر کر کے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔ جس ملک میں کوکنگ آئل 600 روپے فی لٹر مل رہا ہو اور آٹا 160روپے فی کلو مل رہا ہو ، وہاں 30 ہزار ماہانہ آمدنی والا بھی کیسے اپنے بچوں کو پال پوس سکتا ہے۔
ملکی خزانے میں زرمبادلہ کے جس 14ارب ڈالر کے ذخائر کے دعوے آج کل کیے جا رہے ہیں وہ سب کے سب ادھار کے عوض ہیں۔ ان ذخائر میں ہماری محنت کا ایک روپیہ بھی نہیں ہے۔ یہ ادھار اگر آج واپس کرنا پڑجائے تو ہم دھڑام سے زمین بوس ہوجائیں گے۔
جس ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر نکل جانے کا جشن آج منایا جا رہا ہے وہ بھی شام غریباں میں بدل جائے گا۔ ایسے میں حکمرانوں کی فراخدلی دیکھیے کہ اپنے زرمبادلہ سے خریدے ہوئے پام آئل سے گھی اور تیل بنا کر افغانستان کو بیچا جا رہا ہے ۔
جس افغانستان کی کرنسی ہم سے بہت زیادہ مستحکم ہے وہ خود تو یہ پام آئل امپورٹ نہیں کر رہا، بلکہ ہم سے لے کر اپنے عوام کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ ہم اگر آج افغانستان اسمگل کی جانے والی اشیاء پر سخت پابندی لگا دیں تو یقینا ہم خوراک کے اس بحران سے باہر نکل سکتے ہیں، لیکن یہ کام کرے گا کون۔ ہم آج یہ سوال اپنے حکمرانوں کے لیے چھوڑ کے جا رہے ہیں۔