واہگہ بارڈر پریڈ رینجرز کے جوانوں کی تیاری اورعوام کا جوش و خروش

پاکستان کے مشرقی بارڈر پر قومی پرچم اتارے جانے اور پریڈ کا آغاز 1959 میں ہوا تھا جو آج بھی جاری ہے


آصف محمود July 24, 2023
فوٹو : ایکسپریس نیوز

واہگہ بارڈر پر ہر شام قومی پرچم اتارے جانے کی تقریب منعقد ہوتی ہے، اس موقع پر پاکستان رینجرز پنجاب اور بی ایس ایف انڈیا کے جوانوں کے مابین جوش اور جذبوں کی ایک جنگ ہوتی ہے جسے دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لوگ واہگہ بارڈر پہنچتے ہیں۔

یہاں عوام کا جوش اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے، قومی تہواروں اور چھٹی کے روز تو واہگہ اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی، پریڈ میں شریک پاکستان رینجرز پنجاب کے جوان روزانہ ریہرسل کرتے ہیں۔

پاکستان کے مشرقی بارڈر پر قومی پرچم اتارے جانے اور پریڈ کا آغاز 1959 میں ہوا تھا جو آج بھی جاری ہے۔ اس پریڈ کو دیکھنے کے لیے ہر روز نوجوان، بزرگ، خواتین، بچے اور غیرملکی یہاں پہنچتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے بارڈر پر ہونے والی یہ پریڈ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پریڈ شروع ہونے سے ایک، ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھر جاتا ہے۔ اس موقع پر ملی نغموں کی گونج سنائی دیتی ہے جبکہ شائقین نعرے بلند کرتے ہیں۔ پریڈ دیکھنے والوں کا جوش اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے۔

ملک کے مختلف علاقوں سے پریڈ دیکھنے آئے زیادہ تر شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ پہلی بار آئے ہیں، اس سے قبل انہوں نے یہ پریڈ صرف ٹی وی اسکرینوں پر ہی دیکھی تھی۔ یہاں ملک اور پاک افواج سے محبت کا جذبہ اجاگر ہوتا ہے، احساس مٹ جاتا ہے کہ ہم پنجابی ہیں، سندھی، بلوچی، پٹھان یا کشمیری ہیں صرف پاکستانی ہونے کا احساس ہوتا ہے، ہم فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔

شہریوں کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کو یہ پریڈ ضرور دکھانی چاہیے تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ پاکستان رینجرز پنجاب اور ہماری افواج کس طرح ملک کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہی ہے۔

فوٹو : ایکسپریس نیوز فوٹو : ایکسپریس نیوز

پریڈ کے دوران ایک ٹانگ سے محروم نوجوان نے جب ایک ہاتھ میں قومی پرچم اور دوسرے ہاتھ میں بیساکھی اٹھائے اپنی پرفارمنس دکھائی اور قومی پرچم کو سلامی دی تو فضا نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھی، پریڈ دیکھنے آنے والے چھوٹے بچے بھی پنجاب رینجرز کے جوانوں کی نقل کرتے ہوئے قومی پرچم کو سلامی اور سیلیوٹ کرتے ہیں۔

پاکستان رینجرز پنجاب کے مقامی ونگ کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل امیرعبداللہ خان نیازی نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''اس پریڈ کا آغاز 1959 سے ہوا تو جو آج تک جاری ہے''، موسم جیسا بھی ہو یہ پریڈ بند نہیں ہوتی، کوویڈ 19 کے دوران عوام کی انٹری بند کی گئی تھی لیکن قومی پرچم کو صبح کے وقت لہرانے اور شام کو اتارے جانے کی تقریب لازمی ہوتی تھی۔

ونگ کمانڈر نے کہا کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے دوران پریڈ بند ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا یہ ایک شاندار روایت ہے یہاں پاکستان سے محبت کا پیغام ملتا ہے۔

پریڈ کرنے والے دستے میں پنجاب رینجرز کے اسپیشل جوانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے، دراز قد اور پھرتیلے جوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ دستہ 28 جوانوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پریڈ کے آغاز پر جب دستہ اسٹیڈیم میں پہنچتا ہے تو دو لیڈی رینجرز دستے کے آگے چلتی ہیں۔ پریڈ کمانڈر، ونگ کمانڈر سے اجازت لیکر پریڈ کا آغاز کرتا ہے۔ پریڈ شروع ہونے سے پہلے رینجرز کے جوان خود کو وارم اَپ کرتے ہیں۔ پریڈ دستے میں شامل رینجرز جوان نے بتایا کہ ان کا قد 6 فٹ 8 انچ ہے اور ان کا تعلق قصور سے ہے۔ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ روزانہ صبح 7 سے 8 کلو میٹر دوڑ لگاتے ہیں اور پھر ایکسر سائز ہوتی ہے۔ ناشتے میں مٹن دیا جاتا ہے جبکہ شام کو دودھ پیتے ہیں۔

ایک اور رینجرز جوان علی کا کہنا تھا کہ جیسے ہی وہ پریڈ کے لیے اسٹیڈیم میں جاتے ہیں تو ان کے جذبات اور احساسات بدل جاتے ہیں، ان کے سامنے دشمن ملک کے جوان ہوتے ہیں، پریڈ کے دوران جوش اور جذبے کی ایک جنگ ہوتی ہے۔ ہم فخر سے اپنا سینہ چوڑا کرتے ہیں اور دشمن کے جوانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتے ہیں۔

اسکواڈ میں شامل رینجرز جوان خانزادہ نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان کے بوٹوں کے نیچے اضافی چمڑہ اور لوہے کی کھری لگائی جاتی ہے جس کی وجہ سے جب وہ پاؤں اٹھا کر زمین پر مارتے ہیں تو آواز زیادہ آتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں