سادگی سے عاری اشرافیہ
وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ہم جب اپنے دوست ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ حکمران ہمارے چہرے سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی منتیں ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے کیں، مجبور ہو کر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب ہم اپنے دوست ممالک کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہمارے چہرے دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ ہم ان سے کچھ مانگنے آئے ہیں جس سے ہمیں شرمندگی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام خوشی سے قبول نہیں کیا ہمیں قرضوں سے جان چھڑانا ہے۔
وزیر اعظم نے دو ارب ڈالر ملنے پر شہزادہ سلمان کا شکریہ ادا کیا اور دوست ممالک سے قرضوں کے حصول میں کوشش پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے کردار کو بھی سراہا۔
وزیر اعظم نے ڈالر ملنے پر چین، یو اے ای، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کا بھی شکریہ ادا کیا۔ بورڈ کی طرف سے قرضہ منظور کیے جانے پر وزیر اعظم نے کہا کہ قرض ملنا مٹھائی بانٹنے یا شادیانے بجانے کا نہیں شرم کا مقام ہے مگر ہمیں ایسا کرنا پڑا۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کی کوشش شروع کر رکھی تھی اور سوا سال تک منتوں ترلوں کے بعد آئی ایم ایف تین قسطوں میں اپنی کڑی شرائط مکمل کرا کر قرض دینے پر تیار ہوا ہے اور اس نے خبردار بھی کیا ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کی تو مزید قسطیں روک لی جائیں گی۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے وفد نے سابق پی ٹی آئی حکومت کے ان ذمے داروں سے بھی لاہور جا کر ملاقات کی جنھوں نے اپنی حکومت جاتی دیکھ کر آئی ایم ایف سے خود ہی کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول اور بجلی کی قیمت کم کرکے آئی ایم ایف کو ناراض کیا تھا جس کی وجہ سے اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے قدموں میں جھکی، ان کی ہر بات مان کر اپنے عوام کو مہنگائی بڑھا بڑھا کر ناراض کیا۔ آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لیے نواز شریف نے اپنے سمدھی کو وزیر خزانہ بنا کر بھیجا جس کی وجہ سے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل ناراض ہوئے۔
نئے وزیر خزانہ نے بلند و بانگ دعوے کیے پھر وزیر اعظم کو خود پیرس جا کر آئی ایم ایف کو راضی کرنا پڑا وہ بھی صرف ایک ارب ڈالر کی قسط کے لیے جو بورڈ کی منظوری سے مشروط تھی۔
آئی ایم ایف اس پی ٹی آئی حکومت سے ناراض نہیں ہوا جس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور پھر اسی سابق وزیر اعظم کے در پر جا پہنچا جس کی ہدایت پر اس کی حکومت کے سابق وزیر خزانہ نے پنجاب و کے پی کے وزرائے خزانہ کو کہا کہ اتحادی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے قرض کی مخالفت کریں اور قرض نہ ملنے پر پاکستان کو پہنچنے والے نقصان کی بھی فکر نہ کریں اور ہر ممکن رکاوٹ ڈالیں تاکہ قرضہ نہ ملے اور پاکستان ڈیفالٹ کر جائے۔
آئی ایم ایف کو صرف اپنے قرضوں کی واپسی کی فکر ہے اس لیے وہ اپنی ہر شرط منواتا رہا اور اپنے مطالبات سے عوام کی مشکلات بڑھاتا رہا اور حکومت کو مجبور کرتا رہا کہ وہ اپنے عوام کا جینا حرام کیے رکھے۔
عوام کے لیے بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جائیں اور اتحادی حکومت میں شامل ارب پتیوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی عزت اور حمیت کا مظاہرہ کر کے آئی ایم ایف کے آگے سر جھکانے سے انکار کردیں اور بھارت کی طرح آئی ایم ایف کی غلامی نہ مانیں اور کڑی شرائط پر قرضے لینے کے لیے اپنے عوام کو ناراض نہ کریں۔
آئی ایم ایف کی تمام شرائط عوام کے لیے عذاب بن گئیں اس نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف نہ دے، آئی ایم ایف نے اب تک کی کسی حکومت سے نہیں پوچھا کہ انھوں نے اپنی حکومتوں میں آئی ایم ایف سے جو کھربوں ڈالر قرض لیے وہ خرچ کہاں ہوئے عوام و ملک پر کیوں خرچ نہیں ہوئے۔
نواز شریف تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کی تین حکومتوں میں موٹرویز، میٹروز اور سڑکیں بنائی گئیں مگر سب سے زیادہ قرضے لینے والی پی ٹی آئی حکومت میں کوئی میگا منصوبہ تک کیوں نہیں بنا۔
آئی ایم ایف وفد نے سابق وزیر اعظم کے پاس جا کر نہیں پوچھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کرلینے کے دعوے کرتے تھے وہ قرض لینے کیوں آئی ایم ایف کے پاس آئے تھے اور حکومت جاتی دیکھ کر اپنے ہی معاہدے کی خلاف ورزی کیوں کی تھی۔
آئی ایم ایف بھی ہماری حکومتوں کی طرح عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتا بلکہ اپنے مفادات دیکھتا ہے کیونکہ اس نے امریکی پالیسی پر ہی چلنا ہے اور امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور ترقی کرے، اس نے ہمیں آئی ایم ایف کا غلام ہی رکھنا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کا پروگرام خوشی سے قبول نہیں کیا مجبوری میں کیا۔ وزیر اعظم کے کہنے کا تو یہ مطلب ہوا کہ آئی ایم ایف ہمارے پاس آ کر خوشامد کر رہا تھا کہ ہمارا پروگرام قبول کرلو اور ہم نے مجبوری میں کرلیا۔
وزیر اعظم خود اعتراف کر چکے ہیں کہ حکومت نے منت ترلوں، خوشامد اور بڑی ہی مشکلوں سے آئی ایم ایف کو قرض دینے پر راضی کیا ہے جس میں سوا سال لگا اور پھر بھی اتحادی حکومت کو صرف ایک ہی قسط ملے گی۔
وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ ہم جب اپنے دوست ملکوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ حکمران ہمارے چہرے سے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ہم قرض کی درخواست لے کر آئے ہیں، قرض یا امداد کا سوال ہمارے چہرے پر عیاں ہوتا ہے۔ دوست ممالک ہمارے حکمرانوں کے چہرے کے سوال کے ساتھ ان کے جسم پر قیمتی سوٹ بھی دیکھتے ہوں گے اور سوچتے ہوں گے کہ ہم تو اپنے قومی لباس میں رہ کر قرض دیتے ہیں اور یہ مقروض حکمران قیمتی سوٹوں میں آ کر قرض مانگتے ہوئے کیوں شرم محسوس نہیں کرتے۔ وزیر اعظم کے منہ سے سچ بات نکل گئی کہ ہمیں قرض مانگتے ہوئے شرم آتی ہے مگر مجبور ہیں۔
ہمارے حکمران بھارت کی طرح یہ مجبوری ختم نہیں کردیتے اور سادگی سے غیر ملکی دوروں پر کیوں نہیں جاتے اور قرض مانگتے ہوئے اپنے سراپے پر غور کیوں نہیں کرتے کہ وہ مانگنے آئے ہیں دینے نہیں۔