ڈاکوؤں سے اپیل
سندھ کابینہ کے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے وزیرگیان چنداسرانی کو حکومت کے دفاع میں تقریر کا فریضہ انجام دینا پڑا
سندھ کے وزیرگیان چند اسرانی نے ڈاکوؤں سے اپیل کی ہے کہ سندھ میں اقلیتی ہندو برادری کو نقصان پہنچانے سے باز آئیں۔
ایم کیو ایم کی اقلیتی رکن منگلا شرما نے گزشتہ ہفتہ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک نکتہ اعتراض پر نشاندہی کی کہ سندھ کے شہر عمرکوٹ میں ڈاکوؤں نے ایک مندر پر راکٹ لانچر اور دیگر جدید ہتھیاروں سے حملہ کیا ہے۔
سندھ کابینہ کے اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے وزیرگیان چنداسرانی کو حکومت کے دفاع میں تقریر کا فریضہ انجام دینا پڑا، اور وزیر موصوف نے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر تنقید کرنے کے بجائے ڈاکوؤں سے خطاب کیا۔
گیان چند اسرانی نے ڈاکوؤں کو یاد دلایا کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں۔ ڈاکوؤں کو سوچنا چاہیے کہ ملک کو بدنام کرنے والا کام نہ کریں۔ انھوں نے ڈاکوؤں کو کہا کہ اگر ہندوؤں کو نقصان ہوگا تو ملک بد نام ہوگا۔ سندھ میں ہندو ہزار سال سے آباد ہیں، پڑوسی ملک تاک لگائے بیٹھا ہے۔
انھوں نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اقلیتی گروہوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے۔ اسرانی نے کہا کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ انھوں نے ڈاکوؤں کو یاد دلایا کہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہے تو اس کا ہندو برادری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسرانی نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ مسلمان ہندوؤں کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔
ڈاکوؤں کے لیے ہندو برادری ہمیشہ سے آسان ہدف رہی ہے مگر گزشتہ دنوں کچے کے دو ڈاکوؤں کی ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ مسلح ڈاکو اس وڈیو میں جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے چار بچوں کی ماں سیما کے طرزِ عمل پر سخت غصہ میں ہیں۔
سیما سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والے غلام حیدر کی سابقہ اہلیہ ہیں۔ سیما اور غلام حیدر نے پسند کی شادی کی تھی۔ غلام حیدر کراچی میں ٹیکسی چلایا کرتا تھا، پھر بہتر مستقبل کے لیے سعودی عرب چلا گیا۔ سیما اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں سوشل میڈیا پر پب جی گیم کھیلتی تھی، یوں سیما کی اس کھیل کے دوران بھارتی شہری سچن میتا سے دوستی ہوگئی، پھر یہ دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی۔
سیما نے اپنا گھر بیچ دیا اور نیپال کے راستہ بھارت کے شہر دہلی چلی گئی۔ سیما نے ہندو مذہب قبول کرلیا۔ کچے کے ڈاکوؤں کی غیرت جاگ اٹھی۔ ان ڈاکوؤں نے فورا وڈیو بنوائی۔ اس وڈیو میں ڈاکوؤں نے یہ دھمکی دی کہ سیما کو فوری طور پر واپس نہ بلایا تو وہ سندھ میں مندروں پر حملے کردیں گے۔ سندھ حکومت اتنی بے حس ہے کہ ڈاکوؤں کی سرکوبی کے لیے تو کچھ نہ کرسکی مگر یہ سندھ بھر میں مندروں کے تحفظ کے لیے سیکیورٹی الرٹ جاری کردیا۔
سندھ پولیس کے سربراہ نے فوری طور پر چار سو پولیس والوں کو مندروں کی حفاظت کی ذمے داری سونپ دی۔ پولیس حکام نے کشمور میں ایک مندر پر حملہ کے بعد یہ احتیاطی اقدامات کیے مگر سندھ میں مندروں پر حملوں، ہندوؤں اور دیگر شہریوں کے اغواء کا معاملہ پوری دنیا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے منسلک ہے۔
سندھ اسمبلی کے اسی اجلاس میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ندیم صدیقی نے حیدرآباد میں امن و امان کی صورتحال کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ ندیم صدیقی کا مدعا تھا کہ حیدرآباد میں جرائم اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کوئی سڑک ،کوئی محلہ محفوظ نہیں رہا۔ حیدرآباد میں روزانہ ایک درجن سے زائد ڈکیتیاں ہوتی ہیں۔
کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن امداد کھوسو نے لکھا ہے کہ اپر سندھ میں حالات اتنے خراب ہیں کہ سرکاری ادارے لاپتہ نظر آتے ہیں۔ اخبارات میں روزانہ شایع ہونے والی خبروں کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو یہ تلخ حقیقت بار بار واضح ہوتی ہے کہ ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جار ی و ساری ہیں۔
صرف کندھ کوٹ میں ایک ماہ کے دوران 40 سے زائد افراد اغواء ہوئے۔ ڈاکوؤں کے بارے میں یہ تصور تھا کہ وہ عورتوں اور بچوں کو اغواء نہیں کرتے مگر اب ڈاکوؤں کا خاص نشانہ بچے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل پر چلنے والی رپورٹ کے مطابق اس ماہ کندھ کوٹ کے علاقہ سے 6 بچے اغواء ہوئے۔ ان میں ایک تین سالہ بچی بھی شامل تھی۔ ڈاکوؤں کا خا ص نشانہ ہندو ہیں ۔ زیادہ تر ہندو تجارت کرتے ہیں، یوں ان سے تاوان لینا زیادہ آسان ہوتا ہے۔
ہندو برادری ڈاکوؤں کی سرگرمیوں سے اتنی زیادہ پریشان ہے کہ یہ لوگ وطن چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں، جو افراد صاحبِ ثروت ہیں وہ تو امریکا، برطانیہ، یورپ اور کینیڈا جا رہے ہیں، کچھ لوگ سنگاپور اور ملائیشیا بھی گئے ہیں مگر جو لوگ یورپ اور امریکا وغیرہ جانے کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، وہ بھارت جانے کو تیار ہیں۔ گزشتہ مہینہ 10 کے قریب ہندو خاندان ریل کے ذریعہ بھارت چلے گئے تھے۔
اپر سندھ میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی اطمینان بخش سرگرمیوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین قوتیں ان کی سرپرستی کررہی ہیں۔
کچھ صحافیوں نے لکھا ہے کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کی فروانی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا کی فوج افغانستان میں جو جدید اسلحہ چھوڑ گئی تھی، افغان اسمگلر وہ اسلحہ پاکستان میں کھلے عام فروخت کرتے ہیں اور سندھ میں ڈاکو اس اسلحہ کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔
پولیس کے سپاہی کہتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس جدید بندوقیں اور اندھیرے میں دیکھنے والے چشمے بھی ہیں، یوں سندھ پولیس ڈاکوؤں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ گزشتہ ہفتہ شکارپور میں کچے کے علاقہ میں ایک ایس ایچ او کو ڈاکوؤں نے پیغام دیا کہ وہ ایک اغواء شدہ شخص کو رہا کرنا چاہتے ہیں۔ ایس ایچ او کچے کے علاقہ میں گیا اور اغواء کر لیا گیا۔ شکارپور کے ایس پی کا کہنا ہے کہ پولیس نے کئی دن مسلسل آپریشن کیا تو ایس ایچ او کو رہائی مل سکی۔
شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے استاد امداد حسین سہتو نے 2005 میں ڈکیٹس آف ڈکائیٹس نامی تحقیق میں لکھا ہے کہ کلاشنکوف سب سے پہلے سندھ کے ڈاکوؤں نے استعمال کی، بعد میں یہ کلاشنکوف پولیس کے پاس پہنچی تھی۔ تحقیق کے مطابق ڈاکو جدید ہتھیار افغان پناہ گزینوں سے خریدتے تھے۔ اسلحہ کے اسمگلروں سے اس تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا کہ بلوچستان لیویز فورس یا سندھ پولیس کے بدعنوان پولیس افسران ڈاکوؤں کو اسلحہ کی فراہمی میں ملوث رہے ہیں۔ ڈاکو اسلحہ کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے ہیں۔
سکھر کے ایس ایس پی عرفان سموں پنجاب کے شہر رحیم یار خان کے بدنام ڈاکو چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن میں حصہ لے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کے پاس RR-75جیسے جدید ہتھیاروں کے ساتھ مارٹر توپیں بھی ہیں اور مختلف بور کی ایس ایس جی گنز بھی ہیں۔
پروفیسر امداد حسین سہتو کی تحقیق کے مطابق 1984 سے 1994کا عشرہ ڈاکوؤں کی دہائی کے طور پر مشہور تھا۔ تحقیق کے مطابق اس عرصہ میں ڈاکوؤں نے سندھ میں 11 ہزار 436 افراد کو اغواء کر کے ان سے تقریباً تین ارب روپے کا تاوان وصول کیا۔ سکھر کے سندھی اخبار سے وابستہ صحافی ممتاز بخاری نے اپنی یاد داشت کو دھراتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت صدوروشیخ، مجیب شیدی، پروچانڈیو، محب جسکانی، جہادو ناریجو، نذرو ناریجو، نادر جسکانی، میجرکھوسو، کرنل کھوسو، کمانڈو شیخ اور کمال فقیر ڈاکوؤں میں بڑے نام سمجھے جاتے تھے۔
ایس ایس پی سکھر کا کہنا ہے کہ سندھ کے آٹھ اضلاع پنجاب سے جڑے ہوئے ہیں۔ دونوں صوبوں کے ڈاکوؤں کے گروہوں کا آپس میں تعاون بھی ہے۔ کچے کے وسیع علاقہ میں سڑکیں تعمیر نہیں ہوئی ہیں، اس بناء پر ہمیشہ آپریشن میں مشکلات ہوتی ہیں۔
پھر کچے کے علاقے میں کئی برسوں سے قبائلی جھگڑے بھی جاری ہیں۔ اس لیے وہاں کے لوگ ہتھیار بند ہیں۔ اس علاقے کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں تبدیلی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ سندھ کے اقلیتی وزیر کی ڈاکوؤں سے اپیل صرف ان کی بے بسی کی ہی نہیں بلکہ حکومت سندھ کی بے بسی کی بھی علامت ہے۔