نگرانوں کی دوڑ
ایک رائے بن گئی ہے کہ نگران وزیر کے لیے کوئی خاص میرٹ نہیں ہے، بس ٹاپ لیول پراچھا تعلق ہونا چاہیے
آجکل نگران زیر اعظم کون بنے گا؟ سب سے دلچسپ سوال بن گیا ہے۔ اب تک کئی نام سامنے آچکے ہیں۔ نام سامنے آتا ہے، پھر تنقید سامنے آتی ہے، بعد میں ایک اور نیا نام سامنے آجاتا ہے۔ سب سے پہلے صحافی محسن بیگ کا نام سامنے آیا۔ پھر صنعتکار گوہر اعجاز سامنے آیا۔
بعدازاں یہ تھیوری چل گئی کہ ملک کے معاشی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کسی معاشی ماہر کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ یوں حفیظ شیخ کا نام سامنے آگیا۔ ان کے بارے میں یہ خبریں بھی آئیں کہ انھیں پنڈی سے آشیر باد بھی حاصل ہے۔
بعد ازاں سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کا نام بھی سامنے آیا۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اسحاق ڈار کا نام سامنے لے آئی۔ اسحاق ڈار کا نام سامنے آتی ہی سیاسی منظر نامہ میں تیزی آگئی۔
سب نے سوال کرنا شروع کر دیا کہ کیا واقعی اسحاق ڈار نگران وزیر اعظم ہو سکتے ہیں؟ بہر حال پہلے چوبیس گھنٹے تو نون لیگ کی قیادت نے خبر کی تردید نہیں کی بلکہ ایسا ماحول بنایا جیسے واقعی اسحاق ڈار نگران وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ لیکن چوبیس گھنٹے بعد ڈراپ سین شروع ہو گیا۔ پہلے پیپلزپارٹی نے کہا کہ اسحاق ڈار کے نگران وزیر اعظم بننے کا کچھ علم نہیں۔ ایک انٹرویو میں پیپلزپارٹی کی وفاقی وزیر شیریں رحمٰن سے بار بار سوال کیا گیا کہ کیا آپ اسحاق ڈار کا نام مسترد کرتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا،جب نام ہمارے سامنے ہی نہیں آیا تو مسترد کیسے کر دیں۔
ہم صرف اس بات کی تردید کر رہے ہیں کہ یہ خبریں درست نہیں ہیں کہ ہم نے اسحاق ڈار کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ جب نام ہمارے سامنے آئے گا تو پھر اس کو مسترد کرنے یا قبول کرنے کا سوال ہوگا۔ ابھی یہ سوال قبل ازوقت ہے۔ تاہم خواجہ آصف نے کہا کہ یہ نام ٹھیک نہیں۔ حالانکہ ایک دن قبل وہ اس کی حمایت بھی کر رہے تھے۔
دوستوں کی رائے ہے کہ اسحاق ڈار کے نام پر اس قدر منفی رد عمل سامنے آیا ہے کہ اب یہ نام ختم ہو گیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف چند دوستوں کی رائے کہ اتنے رد عمل کے بعد بھی اسحاق ڈار ریس میں ہیں، وہ ریس سے آؤٹ نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی ن لیگ کی پہلی چوائس ہیں۔ جب کسی نام پر اتفاق نہیں ہوگا تو اسحاق ڈار ہی چوائس بن سکتے ہیں۔
اسحاق ڈار نے خود بھی ایک انٹرویو میں اپنے نام پر شرماتے ہوئے کہا کہ انھیں جوبھی ذمے داری ملے گی، وہ نبھائیں گے۔
سادہ بات ہے کہ وہ نگران وزیر اعظم بننے کے لیے تیار ہیں۔ بلکہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنھوں نے معیشت کو تباہ کیا ہے، انھیں کیسے نگران بنایا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حفیظ شیخ اور رضا باقر کے ناموں کو مسترد کرتے ہوئے خود کو زیادہ اہل بتا رہے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم کیوں بنانا چاہتی ہے؟ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اسحاق ڈار کا نام مسترد ہو گیا ہے تون لیگ ایسا ہی کوئی اور نام سامنے لے آئے گی۔ مطلب یہی ہے کہ کسی انتہائی قریبی اور قابل اعتماد شخصیت کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے گا۔ اگر اسحاق ڈار نہیں تو ایسا ہی کوئی اور ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ یہ سوچ کیوں ہے؟ ایک بات تو یہ ہے کہ ایسی بہت سی اطلاعات ہیں کہ نگران حکومت کا دورانیہ طویل ہو سکتا ہے۔
اگر وقت پر عام انتخابات ممکن نہ ہوئے تو نگران سیٹ کی مدت بڑھ جائے گی، ایسے میں ن لیگ کی خواہش ہے کہ نگران وزیر اعظم اپنا ہی ہو تاکہ انتخابات تاخیر سے بھی ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں، وزیر اعظم ہمارا ہی ہے۔ اگر انتخابات وقت پر ہونے ہیں تو پھر اسحاق ڈاریا اس طرح کی کسی شخصیت کو وزیراعظم بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہم تو نگران وزیر اعظم کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن سیاسی مارکیٹ میں متوقع نگران وزیروں کا جمعہ بازار لگا ہو ا ہے۔ سیاستدان تو ہیں ہی لیکن جس کے پاس چار پیسے ہیں، اس کی بھی خواہش ہے کہ کسی طرح نگران وزیر بن جائے۔ ٹیکنوکریٹس کا الگ جمعہ بازار ہے ۔
نگران وزیر اعظم کے امیدوار تو شاید تین چار ہیں۔ لیکن نگران وزیر تو ہر گلی میں پھر رہا ہے۔ یہ نیا ٹرینڈ بنا ہے کہ فلاں نگران ہوسکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔
مارکیٹ میں نگران وزیر بننے کا ریٹ رکن اسمبلی کے ٹکٹ سے زیادہ ہے۔ لوگ پاپولر پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے تو پیسے دیتے ہیں، ٹکٹوں کے لیے پیسے دینے اور لینے کی کئی وڈیوز اورآڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔
نو مئی سے پہلے تحریک انصاف کے ٹکٹ ریٹ ایک کروڑ سے اوپر چلا گیا تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ مہنگے داموں خریدے گئے ٹکٹ مفت میں واپس کیے جا رہے ہیں۔ آجکل ن لیگ کا ٹکٹ مہنگا ہوگیا ہے۔ کل جنھوں نے پیسے کے زور پر تحریک انصاف کے ٹکٹ خریدے تھے، آجکل وہ ن لیگ کا ٹکٹ خریدنے کے چکر میں ہیں۔
اس لیے ٹکٹوں کی مارکیٹ میں تیزی اپنی جگہ موجود ہے۔لیکن آج کل نگران وزیروںکی مارکیٹ بھی پیدا ہوگئی ہے حالانکہ 2018میں اس مارکیٹ کا وجود نہیں تھا لیکن اس بار یہ مارکیٹ ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس میں خاصی تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔
خوشحال لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ نگران وزیر بننا بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے، مدت چاہے چند ماہ کی ہے لیکن اقتدار کے مزے مل جاتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں سرنگ لگ جاتی ہے۔ پھر آپ کا ایک نام بھی بن جاتا ہے۔ ساری عمر نام کے ساتھ سابق وزیر بھی لکھا جاتا ہے۔ آپ ایک خاص کلب میں شامل ہو جاتے ہیں، اس لیے لوگ اب نگران وزیر بننے میں بہت دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
اوپر سے پنجاب اور کے پی کی نگران حکومتیں لمبی ہو گئی ہیں۔ جو لوگ پنجاب اور کے پی کی نگران حکومت کا حصہ بنے ہیں، ان کی موجیں لگ گئی ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت بھی لمبی ہو جائے گی ، اس لیے وہاں نگران وزیر بن جانا چاہیے ۔
گزشتہ دنوں ایک بہت ہی نامور آدمی جب نگران وزیر کے لیے اپنی درخواست لے کر پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ آپ سے پہلے پچاس درخواستیں آچکی ہیں۔ آپ کافی لیٹ ہیں۔ یہ صورتحال سب سیاسی جماعتوں میں ہے، سب کے پاس نگرانوں کی لمبی لسٹ آگئی ہے۔
ایک رائے بن گئی ہے کہ نگران وزیر کے لیے کوئی خاص میرٹ نہیں ہے، بس ٹاپ لیول پراچھا تعلق ہونا چاہیے، یہی میرٹ ہے۔ اس نگران وزیر بننے کے امیدواروں کی فہرست میں صرف صنعتکار اور سرمایہ کار نہیں ہیں بلکہ ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ریٹائرڈ ججز بھی نظر آرہے ہیں۔ اب سوال ہے کہ کیا وہ بھی پیسے دے رہے ہیں، جی! وہ بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔ سفارشیں بھی لگ رہی ہیں، پیسے کی پیشکش بھی موجود ہے۔