طوفانی بارشیں اور پیشگی اقدامات کا فقدان

اس سال یہ شرح کچھ زیادہ ہی ہے کہ ابھی تو ٹھیک طرح سے مون سون شروع بھی نہیں ہوا


Editorial July 27, 2023
(فوٹو : فائل)

مون سون ہوائیں بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے ملک کے وسطی اور جنوبی حصوں میں مسلسل داخل ہو رہی ہیں۔ ایک مغربی لہر بھی بالائی حصوں پر موجود ہے۔

28 جولائی سے ملک کے بالائی علاقوں میں مون سون کا ایک اور نظام آنے کا امکان ہے۔ بلوچستان، بالائی خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان، شمال مشرقی، جنوبی پنجاب، خطہ پوٹھوہار، بالائی سندھ میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

ملک بھر میں ساون کی جھڑی لگ گئی ہے۔ راوی، ستلج ، چناب اورجہلم میں پانی کی سطح بلند ہے، جب کہ ان دریاؤں کے کنارے آباد سیکڑوں دیہات زیرآب آچکے ہیں۔

بارشوں نے نکاسی آب کے ناقص انتظامات کی قلعی بھی کھول دی۔ لاہور، کراچی سمیت بڑے شہروں میں مین شاہراؤں پر کھڑے پانی سے نظام زندگی جام ہوچکا ہے، مون سون بارشوں سے دریاؤں، ندی نالوں میں سیلابی صورت حال بھی پیدا ہوگئی ہے۔

راولپنڈی میں نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہوگئی۔ ہزارہ اور کشمیر سمیت بالائی مقامات میں بھی ندی نالوں میں طغیانی آگئی ہے۔

مون سون بارشوں سے لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ ایسا ہر سال ہوتا ہے کہ مون سون کے دوران تباہ کن صورت حال دیکھنے میں آتی ہے، ناقص انتظامات کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ قیمتی انسانی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔

اس سال یہ شرح کچھ زیادہ ہی ہے کہ ابھی تو ٹھیک طرح سے مون سون شروع بھی نہیں ہوا۔ پاکستان میں مون سون عام طور پر جولائی سے ستمبر تک چلتا ہے، اسی طرح گلیشیئر بھی پگھلتے ہیں اور دریاؤں میں سیلاب آ جاتا ہے، ایک طرف بارش کا پانی تو دوسری طرف سیلابی ریلے، خاص طور پرکچی بستیوں اور دیہی علاقوں میں تباہی مچاتے ہیں۔

پانی بلاشبہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور ماہرین کے مطابق بارشوں کی کاشتکاری کے لیے اشد ضرورت ہوتی ہے مگر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور معمول سے زیادہ بارشیں بھی تباہی کا باعث بن جاتی ہیں جب کہ ابھی بارشوں کا بڑا سلسلہ مستقبل میں متوقع ہے۔ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی صوبائی اتھارٹیاں قائم ہیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اداروں میں ہر سال کاغذی اسکیمیں بنتی ہیں اور عملی اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔ محکمہ موسمیات اپنی پیش گوئی کر کے ایک طرف ہو جاتا ہے لیکن جن وفاقی و صوبائی محکموں کو اس پیش گوئی کے مطابق پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں وہ سوئے رہتے ہیں۔

تباہی کے بعد تو ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا کام شروع ہوتا ہے مگر جو ادارے یا محکمے حفاظتی انتظامات کے لیے بنائے گئے ہیں وہ مون سون کے شروع ہونے سے پہلے انتظامات کیوں نہیں کرتے؟ کہیں نالوں کی صفائی نہیں ہوتی اورکہیں سیوریج کے نظام کی صفائی نہیں کی جاتی، تھوڑی سی بارش سے شہر جل تھل ہوجاتے ہیں۔

سڑکیں ندی نالے بن جاتے ہیں اور پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے جس سے کئی گھر گر جاتے ہیں اور جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار تاسف توکیا جا رہا ہے مگر یہ بھی بتایا جائے کہ آنے والے دنوں میں نقصان سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟ پاکستان کو دہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایک طرف سیلابی و بارشی پانی کی وجہ سے دریا اور ندی نالے ابل پڑتے ہیں اور دوسری طرف بھارت اچانک دریاؤں میں پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے کسانوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور دیہی آبادی کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

ہر سال ہمارے متعلقہ محکمے اس وقت جاگتے ہیں جب پانی سر سے گزرنے تک پہنچ جاتا ہے حالانکہ ایک بار کی تباہی کے بعد سبق سیکھنا چاہیے تاکہ دوبارہ اس تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ اسلام آباد جیسا ملک کا دارالحکومت سیلابی ریلے کی زد میں آ جاتا ہے جو سڑکیں بہا لے جاتا ہے۔ آخر بارش کے پانی کو ایک محفوظ گزر گاہ کیوں فراہم نہیں کی جا سکتی تاکہ کم وقت میں نکاسی آب ممکن ہو سکے۔کراچی کی حالت بھی تھوڑی سی بارش کے بعد تباہی کا باعث بن جاتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں سیوریج کے نظام پرکبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی۔

کراچی میں کچرا کنڈی اور گندے نالوں پر تعمیرات نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، بارشیں ہوتی ہیں تو بند نالوں کی وجہ سے سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں جس سے جانی ومالی نقصان کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔

کراچی شہر چند بنیادی فزیکل اور سول انجینئرنگ منصوبہ بندی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا، اس کے لیے سب سے پہلے فراہمی و نکاسی آب کے مثالی، شفاف اور فالٹ فری نظام کی بنیاد ڈالنی ضروری ہے، نکاسی آب کا تعلق گندے نالوں، برساتی نالوں اور شہری شاہراہوں سے جڑے آئی لینڈز پر بنے ہوئے نکاسی آب کے موثر سسٹم سے جڑا ہوتا ہے۔

ماہر انجینئر ہی نکاسی آب کو جدید ترین منصوبہ بندیوں سے بارش اور سیلابی ریلوں سے محفوظ سسٹم دے سکتے ہیں، اسی طرح فراہمی آب کے جتنے وسائل ہیں وہ کلری جھیل، سی اوڈی فلٹر اور حب ڈیم سے مربوط ہیں مگر کسی حکومت اور کسی دور کی بیوروکریسی نے اربن ڈرینیج اور سیوریج سسٹم کے لیے فنڈز کے بہتر استعمال کا کوئی ماسٹر پلان چلنے نہیں دیا، دوسری بات سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کی ہے، خاکروبوں، کنڈی مینوں اور ہزاروں ٹن وزنی کچرے کے یومیہ ٹھکانے لگانے والی افرادی طاقت کی ہے۔

ان تمام اداروں کی نگرانی کے لیے سندھ اور مقامی حکومت کے اعلیٰ افسران اور اہلکار ہمہ وقت موجود ہیں، کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، صوبائی وزرا، معاونین خصوصی، مشیران، میونسپل کمشنرز کی فوج ظفر موج سندھ حکومت اور مقامی حکومت کے اداروں میں کروڑوں کی تنخواہ، مراعات، پنشن اور الاؤنسز لیتے ہیں مگر بارش ہر سال تباہ کاریوں کے ساتھ آتی ہے، کئی مون سون سپلز آئے، سیلاب نے بارہا سندھ کے عوام کے گھر ڈبوئے، ہزاروں خاندان بے گھر ہوتے رہے، ہزاروں ایکڑ اراضی سیلاب برد ہوتی رہی، سیلاب سے متاثرین رلتے رہے، ان کی آباد کاری اور بحالی کے لیے کوئی مستقل اور دائمی سسٹم قائم نہیں ہوا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ کراچی کا انتظامی ڈھانچہ برس ہا برس سے ایڈہاک سسٹم کا اسیر رہا، نہ مقامی خود اختیاری حکومت کے تصور کو استحکام نصیب ہوا اور نہ سندھ حکومت نے کوئی مثالی انتظامی پیش رفت اہل سندھ اور کراچی کے اربن سواد اعظم کے لیے پیش کی، ہر دور حکومت تباہی کے ایک درد ناک تسلسل کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

مسئلہ کراچی کی فزیکل پلاننگ کا ہے، اس کے اربن پھیلاؤ، اقتصادی جہت، کچی آبادیوں کے قیام، جرائم کی لرزہ خیز صورتحال، منی پاکستان کی آفرینش اور بنیادی انفرا اسٹرکچر کی ترقی سے عدم تعلقی یہ سارے عناصر مل کر کراچی کی بد صورتی کی اس لیے تعمیر کرتے رہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو شہر کو اون کرنے کی کوئی فرصت نہیں ملتی، سب '' باون گزے'' ہیں، اگر کراچی کی ترقی کے مسئلہ اور شہری سہولتوں کے فقدان کا معاملہ سامنے رکھا جائے تو ایک مکمل سیاسی پولرائزیشن اور افراتفری نظر آتی ہے جب کہ شہر کی افسوسناک صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ماتحت سویلین اداروں اور مقامی حکومت کی کارگزاری اور احتساب کا میکنزم وضع کر سکتی ہے۔

شہر کی تمام سیاسی جماعتیں شہر کو تباہی اور بربادی سے بچانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن حقیقت تلخ سہی مگر بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے کہ کوئی سیاسی جماعت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک دوسرے سے عملی تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتی، سیاسی روش کا قومی معیار محاذ آرائی کشیدگی، تناؤ اور بلیم گیم سے آراستہ ہے، سیاستدان پوائنٹ اسکورنگ کے لیے تو دستیاب ہوتے ہیں مگر ٹھوس کاموں کی تکمیل کے لیے کوئی معاونت پر آمادہ نہیں۔

اس وقت ضرورت ایک عمومی سیاسی اتفاق رائے کی نہیں بلکہ اربن معاہدہ عمرانی کی ہے، جس کے تحت وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ فعالیت اور فیصلہ کن اقدام کرتے ہوئے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر اکٹھا کریں، انھیں کراچی کی بربادی کا نوحہ سنائیں، تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کراچی کی موجودہ صورتحال پر اوپن مکالمہ کریں، وسیع تر بنیادوں پر اربن پلاننگ کے لیے تجاویز مانگیں۔

ان اداروں سے باز پرس کریں ان کے افسروں اور اہلکاروں سے پوچھیں کہ فنڈز کی فراہمی کے باوجود منصوبے مکمل کیوں نہیں ہوتے، اگر فنڈزکی فراہمی نہیں ہو رہی توکارروائی کریں۔ وقت آگیا ہے کہ کراچی کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ نکاسی و فراہمی آب، صحت و تعلیم، روزگار، ماحولیات، ٹرانسپورٹ، سالڈ ویسٹ اور فائر بریگیڈ سمیت شہر قائد کی اربن تباہی صرف صوبائی حکومت پر الزامات لگانے سے ختم نہیں ہو سکتی۔

اس کے لیے جمہوری اسپرٹ اور سیاسی اسپورٹس مین شپ سے کام لینے کی ضرورت ہے، کراچی کو ایک شفاف شہری بلدیاتی، مقامی اور صوبائی انتظامیہ، جمہوری بصیرت، عمل کی طاقت اور امنگ ہی تباہی سے بچا سکتی ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ بارشوں اور سیلاب سے جو نقصان ہو چکا ہے، آیندہ اس سے عوام کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

اس کے لیے متعلقہ محکموں کو جہاں چوکس رہنے کی ضرورت ہے، وہاں باہمی رابطے کو بڑھانا بھی ضروری ہے تاکہ کسی ایمرجنسی میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں