بنگلہ دیش مزدوروں کی حالت زار
یہ وہی ڈھاکہ ہے جہاں کے مزدور اپنے ہاتھوں سے دنیا کا مشہور ترین ریشمی(مو سیلینی) کپڑا بناتے تھے
یہ وہی ڈھاکہ ہے جہاں کے مزدور اپنے ہاتھوں سے دنیا کا مشہور ترین ریشمی(مو سیلینی) کپڑا بناتے تھے جو مغربی ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا۔ کہاوت ہے کہ ایک تھان کپڑا ایک ماچس کی ڈبیہ میں سمو جاتا تھا اور جب انگریز یہاں سے جانے لگے تو ان ہنرمند مزدوروں کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔ اسی ڈھاکا میں ایک برس قبل محنت کشوں کے کام کے اوقات کار میں ایک عمارت کے اندر آگ لگ کر جھلس کر وہ چیخ و پکار اور آہ و بکا کرتے ہوئے ہم سے جدا ہو گئے۔ بنگلہ دیش میں اپریل 2013 کو ڈھاکہ کے نواحی علاقے میں 8 منزلہ عمارت رعنا پلازہ منہدم ہو گئی۔ اس وقت تقریباً ہزار مزدور کام کر رہے تھے۔ اس عمارت میں ملٹٰی نیشنل کمپنیوں کے لیے گارمنٹ بنانے والی کئی مقامی فیکٹریاں مال تیارکرتی تھیں۔ اس خوف ناک سانحے میں 1138 مزدور، جن میں زیادہ ترخواتین تھیں، ملبے تلے دب کر مرگئیں اور 1300 سے زائد زخمی حالت میں نکالی گئیں جو ایک سال گزرنے کے باوجودکام کرنے کے قابل نہ ہو پائیں۔ رعنا پلازہ میں 28 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کپڑے تیار ہوتے تھے۔ اس درد ناک صنعتی حادثے نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ حادثہ انسانی غفلت اور قانون کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پیش آیا۔ عمارت میں کئی دنوں سے دراڑیں پڑ رہی تھیں لیکن مالکان نے اس خطرے کو نظر انداز کیا۔ واضح رہے بنگلہ دیش میں صنعتی مزدوروں کے حالات بدتر ہیں۔ طویل اوقات کار، کم اجرتیں، صحت و تحفظ کی ناقص سہولتیں اور مزدوروںکے حقوق کی خلاف ورزی روز مرہ کا معمول ہے۔ ہر چند کہ ٹیکسٹائل کی صنعت سے منسلک مزدور ملک کو بھاری رقوم کما کر دے رہے ہیں۔ یہ سارے منافعے کے رقوم سرمایہ داروں کے جیب میں جا رہے ہیں۔ رعنا پلازا کے حادثے کے بعد بنگلادیش کی تیس سے زائد مزدور تنظیموں، ٹریڈ یونینوں،کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور مختلف شہری تنظیموں نے مل کر جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں رعنا پلازا فنڈ کا عمل میں آیا۔ مارچ 2014 تک اس مد میں 15 ملین امریکی ڈالر جمع ہوئے۔ مالکان اور حکومت کے تمام تر وعدوں کے باوجود آئی ایل او کنوینشن 121 کے مطابق شفاف عمل کے ذریعہ متاثرین کو معاوضہ ادا نہیں کیا، بنگلادیش کی حکومت نے قانون کے تحت 2013 میں کم از کم اجرت میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا، بنگلادیش کی حکومت نے 2013 میں یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے قوانین میں تبدیلیاں کی اور نا اسے آسان بنایا۔
بنگلادیش کی تنظیموں، یورپی ممالک کے شہری اور مزدور حقوق کی تنظیموں، بین الاقوامی کمپنیوں اور عالمی اداروں کے محنت کشوں کے تعاون سے معاہدہ برائے آتش زدگی اور عمارت کی سلامتی پر 21 ممالک کی 151 برانڈ کمپنیوں کے دستخط ہونے کے باوجود اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش کی 1800 فیکٹریوں میں بنگلہ دیشی قوانین کے مطابق صحت و سلامتی کے معیار کو یقینی بنایا گیا اور نہ بنگلہ دیش میں اس معاہدے کے تحت فیکٹریوں میں لیبر انسپیکشن کا کام شروع ہوا، جس میں فیکٹریوں میں موجود ٹریڈ یونینیں بھی اپنا کردار انجام دے سکیں۔ امریکہ کے مزدوروں نے ایک نیٹ ورک، ''الائنس برائے سلامتی بنگلہ دیش'' کارکنان قائم کیا ہے۔ جس کے تحت امریکی شہری اور کارکنوں کی تنظیموں اور یونیورسیٹیوں کے طلبہ نے ان کمپنیوں کے خلاف مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں۴۲ا پریل ۴۱۰۲ء کو اس سانحہ کی پہلی برسی کے موقعے پر جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں اور مزدوروں کے حقوق کو اجاگر کرنے کے لیے سیمینار، جلسے، جلوس اور تقریبات منعقد کی گئیں۔
محمد اکرم کا بہاولپور سے یکم مئی پر ان کے گمبھیر مسائل کے حوالے سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 2000ء میں حکومت پاکستان نے ایک ایسا قانون متعارف کروایا کہ مستقل ملازمین کی جگہ ٹھیکیداری نظام نے لے لی اور بینکوں سے ہزاروں ملازمین کو نکال کر ان کی جگہ غیر مستقل (ٹھیکیداری) تقرری شروع کر دی۔ کسی بھی ادارے میں ہوں خاص کر سر کاری ادارے میں تو لگ بھگ ساری سہولتیں میسر ہیں جب کہ ٹھیکیداری ملازم کو صرف اور صرف حکومت کی جانب سے مقررہ اجرت سے بھی کم دی جاتی ہے۔ ٹھیکیداری میں ایک دن کی 333 روپے دہاڑی ملتی ہے۔ پی پی پی کے دور حکومت میں رضا ربانی نے ٹھیکیداری نظام کی تقرری پر بندش کے لیے قانون سازی کی کوشش کی مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے، یہ مزدوروں کی حامی جماعت کہلاتی ہے۔ جب یہ اقتدار میں رہ کر کچھ نہیں کر سکی تو پھر حزب اختلاف میں رہ کر کیونکر کچھ کر سکتی ہے۔ تنخواہیں تو شاید اس لیے نہیں بڑھاتے کہ سرمایہ داروں کے منافعے میں کمی ہو جائے گی۔ اس ٹھیکیداری سے متعلق حکومت پاکستان نے کبھی بھی ان اداروں میں آڈٹ نہیں کروائی۔ غیر مستقل ملازمین کی تنخواہیں حکومت بڑھاتی ہے اور نہ اداروںکی جا نب سے بڑھائی جاتی ہے۔
ہاں مگر ہمارے حکمراں بڑے بڑے وعدے ضرور کرتے ہیں۔ ایک جانب حکومت کم از کم تنخواہ 10 ہزار روپے کرنے کا اعلان کرتی ہے جب کہ حکومتی اداروں میں اسکیل ایک کے ملازمین کو ۰۰۵۴۱ روپے ملتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ اعلان کیا تھا کہ مزدوروں کی تنخواہ کم سے کم 15000 روپے کردیں گے لیکن ان کی حکومت کو ایک سال ہونے کو ہے صرف 10000 روپے ہے، وہ بھی خیبر پختون خوا میں جب دس ہزار روپے ہوئی تو حکومت پنجاب میں بھی اعلان کیا گیا۔ سر کاری ملازمین کی تنخواہیں تو کچھ نہ کچھ بڑھ ہی جاتی ہیں مگر 90 فیصد عام مزدوروں کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں۔ محمد اکرم کہتے ہیں کہ ایک مزدور کی تنخواہ کم از کم 20000 روپے ہونی چاہیے، اس لیے بھی کہ سرمایہ داروں کے منافعے میں دھڑا دھڑ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ کچھ تنخواہیں بڑھتی رہتی ہیں مگر ہمارے ہاں نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں یہ حکومت کیا کرتی ہے؟
پشاور سے ایک بیوہ شمشادہ کا درد ناک خط موصول ہوا جس میں وہ لکھتی ہیں کہ میں لوگوں کے گھروں میں کپڑے استری کرکے مشکل سے گزارا کرتی ہوں، اکژ ہمارا چولھا ٹھنڈا رہتا ہے۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کے لیے مقامی ایم پی اے کے پاس گئی اس نے ڈپٹی کمشنر کے نام سفارشی رقعہ دیا۔ میں جب ڈپٹی کمشنر کے پاس گئی تو اس نے زکوۃ کمیٹی کے چیئرمین کے نام ایک رقعہ دیا۔ پھر جب میں زکوۃ کمیٹی کے چیئرمین کے پاس گئی تو انھوں نے ایک سلائی مشین دے دی۔ کیا سلائی مشین سے شادی ہو جاتی ہے؟ میرا ایک بھائی ہے جو مزدوری کرتا ہے اور میرے گھر کا خرچہ چلاتا ہے۔ مجھے بیٹی کی شادی کے لیے کم از کم 60000 روپے کی ضرورت ہے۔ میں پہلی بار کسی کالم نگار کو اس طرح کا خط لکھ رہی ہوں۔ کوئی مدد کرنا چاہے تو وہ میرے بھائی کے فون نمبر 03059471791 اور پتہ ڈاک خانہ مقرا، ورسک، پانمر ڈھیری، سرخام ترا، ورسک، پشاور۔
برصغیر کی خونی تقسیم میں 60 لاکھ انسانوں کا قتل ہوا۔ مگر حاصل کیا ہوا؟ بنگلہ دیش ہو، پاکستان ہو یا ہندوستان یہاں کے لوگ بھوک، افلاس، غربت، بے گھری، بے روزگاری، لاعلاجی، ناخواندگی، ذلت اور اذیت سے دو چار ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ طبقاتی نظام کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ خلیج میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ایک جانب ارب پتیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور دوسری جانب افلاس زدہ عوام کی فوج میں۔ ان دکھوں، اذیتوں اور ذلتوں سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے غیر طبقاتی نظام کا قیام جو ایسا اشتمالی نظام قائم ہو جہاں نجی ملکیت کو ختم کر کے سارے وسائل کے مالک سارے عوام ہوں۔