ادارہ جاتی زوال

پاکستان کے تمام صوبوں میں روزانہ بارشیں ہو رہی ہیں ‘ اس باراپر پنجاب میں بارشوں کی شرح غیر معمولی ہے


Editorial July 28, 2023
پاکستان کے تمام صوبوں میں روزانہ بارشیں ہو رہی ہیں ‘ اس باراپر پنجاب میں بارشوں کی شرح غیر معمولی ہے (فوٹو : فائل)

پاکستان کے تمام صوبوں میں روزانہ بارشیں ہو رہی ہیں ' اس باراپر پنجاب میں بارشوں کی شرح غیر معمولی ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں میں سیوریج سسٹم مفلوج، سڑکیں اور گلیاںپانی کے تالاب میں تبدیل ہو گئی ہیں۔

اس بار لاہور شہرکی حالت خاصی خراب ہوئی ہے' معروف ترین شاہراہیںپانی میں ڈوب کر تالاب یا دریا کا منظر پیش کرتی نظر آرہی ہیں۔مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پانی میں ڈوبی ہوئی لاہور کی شاہراہوں کی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے۔

ادھر محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں تیز بارش جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے ۔ این ڈی ایم اے نے بھی متعلقہ اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔

این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری اپڈیٹ کے مطابق موسلادھار بارش کی وجہ سے خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں لینڈ سلائیڈنگ، فلیش فلڈنگ اور موسمی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔

اب مسئلہ تو یہی ہے کہ محکمہ موسمیات نے بھی پیش گوئی کر دی کہ بارشیں جاری رہیں گی' این ڈی ایم اے نے بھی متعلقہ محکموں کو الرٹ جاری کر دیا کہ تیار رہیں۔اتنا کرنے کے بعد ان دو محکموں نے تو اپنے تئیں اپنا فرض پورا کر دیا اور ان محکموں کے افسران اور ملازمین سکون سے گھروں میں چلے گئے۔

انھیں سرکاری خزانے سے تنخواہیں اور مراعات بھی ملتی رہیں گی لیکن انھوں نے جو کام کیا وہ صرف پیش گوئی اور الرٹ جاری کرنے تک محدود ہے۔بہرحال پاکستان میں ہر غلط کام میں بھی قانونی جواز موجود ہوتا ہے۔ اب متعلقہ محکموں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

ضلعی انتظامیہ یعنی کمشنر 'ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر حضرات کے پاس اپنے دائرہ کار کے حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی جواز ہو گا اور وہ بھی اپنی ذمے داری کسی اور ڈیپارٹمنٹ پر ڈال کر سرخرو ہو جائیں گے۔

زیادہ سے زیادہ ڈپٹی کمشنرز حضرات سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے دیہاتیوں اور ان کے کھیتوں کی سیر کرنے کے لیے سرکاری دورے پر چلے جائیں گے۔اب بلدیاتی اداروں کی طرف آ جائیں ' شہروں میں نکاسی آب کے ذمے دار محکموں کے افسران اور اہلکار سارا سال سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے رہتے ہیں۔

ان کا اصل امتحان انھی دنوں میں ہوتا ہے جس میں وہ کئی دہائیوں سے مسلسل فیل ہوتے آ رہے ہیں ' دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنی بار فیل ہونے کے باوجود ان سے کسی نے کبھی بازپرس کی اور نہ ہی اس نااہلی پر معطل کیا ۔اسی طرح شہروں میں صفائی ستھرائی کی ذمے داری جن پر عائد ہوتی ہے 'ان کی کارکردگی بھی حالیہ بارشوں میں عیاں ہے ' وہ اس طرح جگہ جگہ کوڑے اور پلاسٹک بیگز کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں ' جیسے ہی بارش ہوتی ہے۔

یہ سارا گند سڑکوں پر تیرنے لگتا ہے یا گندے نالوں کے پانی میں تیر رہا ہوتا ہے۔کسی جگہ یہ کوڑا سیوریج کو بند کر دیتا ہے۔یہ تو ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی ہے ' بارشوں اور سیلاب میں بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آجاتا ہے ' کرنٹ لگنے سے بے گناہ لوگوں کی جانیں ضایع ہوتی ہیں ' لوگوں کے کروڑوں روپے مالیت کے مویشی کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ایسا برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان کھمبوں اور تاروں کی حفاظت کے ذمے دار افسران کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی اور نہ ہی ان افسروں کی کبھی تنخواہیں اور مراعات بند کی گئی ہیں۔

پاکستان میںرقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچا رکھی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق خاران اور واشک میں متعدد حفاظتی بند ٹوٹ گئے ہیں۔ بسیمہ میں کچے مکان اور دکانیں ریلے کی نذر ہو گئیں۔

انگور، انار کے باغات، پیاز، کپاس کی فصلیں برباد ہو گئیں۔اطلاعات کے مطابق خاران میںایک ہزار کے قریب مکانات کو نقصان پہنچاہے۔ ادھر پنجاب اور سندھ کے کئی علاقے بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پنجاب کے ضلع بہاولنگرمیں متعدد بند ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے متعدد بستیاں زیر آب آ گئی ہیں۔

ضلع جھنگ میں 50 دیہات سیلاب کی زد میںآئے ہیں۔اب تک ہزاروں ایکڑ رقبے پر پھیلی فصلوں کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور میںسیلابی ریلے سے عربی روڈ کا پل ٹوٹ گیا ہے۔ دریائی علاقوں میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔

لاہورمیں شاہدرہ کے مقام پر دریائے راوی کا 31ہزار کیوسک پانی کا ریلا گزر اہے۔ دریائے سندھ، چشمہ بیراج کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، چشمہ بیراج میں پانی کا اخراج 3لاکھ 86ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دریائے سندھ میں تربیلا، کالاباغ، تونسہ اور گدو بیراج کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

بلوچستان، بالائی خیبر پختونخوا،کشمیر، گلگت بلتستان، شمال مشرقی، جنوبی پنجاب، خطہ پوٹھوہار، بالائی سندھ میں بارش کا امکان ہے۔پنجاب کے تمام دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہے۔ یہی حال برساتی نالوں کا ہے۔نہروں میں بھی پانی کا بہاؤ زیادہ ہو گیا ہے۔

دریائے سندھ میں بھی درمیانے درجے کا سیلاب چل رہا ہے۔ دریاؤں، ندی نالوں میں سیلابی صورت حال بھی پیدا ہوگئی ہے۔ پچھلے دنوں راولپنڈی میں نالہ لئی میں پانی کی سطح 23فٹ تک بلند ہوگئی تھی۔اگر یہ مزید بلند ہوتی تو راولپنڈی شہر میں سیلابی صورت حال پیدا ہو جاتی۔ ہزارہ اور کشمیر سمیت بالائی مقامات میں بھی ندی نالوں میں طغیانی آگئی ہے۔

پہاڑی علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیںاور ان میں کئی جانیں بھی ضایع ہو رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت نے ان علاقوں میں سیاحوں کے جانے پر پابندی عائد نہیں کی۔

پاکستان میں مون سون جولائی سے ستمبر تک چلتا ہے، گلیشیئر بھی پگھلتے ہیں اور دریاؤں میں سیلاب آ جاتا ہے، ایک طرف بارش کا پانی تو دوسری طرف سیلابی ریلے'نشیبی علاقوں اور دیہی علاقوں میں تباہی مچاتے ہیں۔ پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی صوبائی اتھارٹیاں قائم ہیں۔

سرکاری اداروں میں ہر سال کاغذی اسکیمیں بنتی ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔سرکار ہر سال کئی ارب روپے ترقیاتی پروگراموں کے لیے مختص کرتی ہے' منتخب نمائندوں کو بھی فنڈز دیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں قدرتی آفات اور بارشوں اور سیلابوں سے نقصانات کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔

محکمہ موسمیات اپنی پیش گوئی کر کے ایک طرف ہو جاتا ہے لیکن جن وفاقی و صوبائی محکموں کو اس پیش گوئی کے مطابق پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں وہ سوئے رہتے ہیں۔ جو ادارے یا محکمے حفاظتی انتظامات کے لیے بنائے گئے ہیں وہ مون سون کے شروع ہونے سے پہلے انتظامات کیوں نہیں کرتے؟

کہیں نالوں کی صفائی نہیں ہوتی اورکہیں سیوریج کے نظام کی صفائی نہیں کی جاتی، برساتی نالوں کی صفائی پر تو کسی کی توجہ ہی نہیں ہے بلکہ برساتی نالوں کو گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کے کنارے رہائشی آبادیاں تعمیر کر دی گئی ہیں اور فیکٹریاں لگا دی گئی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ تھوڑی سی بارش سے شہر جل تھل ہوجاتے ہیں، سڑکیں ندی نالے بن جاتے ہیں اور پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہو جاتا ہے جس سے کئی گھر گر جاتے ہیں اور جانی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار تاسف توکیا جا رہا ہے مگر یہ بھی بتایا جائے کہ اس تباہی کے ذمے داروں کا کتنا احتساب ہوا ہے۔

یہاں تو یہ حال ہے کہ اسلام آباد جیسا جدید شہربھی بارشوں سے متاثر ہو رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس شہر کا پھیلاؤ زیادہ ہو گیا ہے جب کہ سرکاری ادارے زوال پذیر ہیں۔کراچی کی حالت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس خوبصورت شہر میں تھوڑی سی بارش کے بعد تباہی مچتی ہے 'اس سے کراچی کے شہری ہی نہیں بلکہ پورا ملک آگاہ ہے۔

کراچی میں کچرا کنڈی اور گندے نالوں پر تعمیرات نے شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، بارشیں ہوتی ہیں تو بند نالوں کی وجہ سے سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں جس سے جانی ومالی نقصان کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ اب یہ شہر اس قدر پھیل چکا ہے ' بے ہنگم رہائشی آبادیاں اتنی زیادہ ہو چکی ہیں 'شہر کی آبادی تین کروڑ کے قریب ہو چکی ہے ' اتنی آبادی تو کئی ملکوں کی بھی نہیں ہے ' گندے نالوں کے راستے بند کر کے گھر بنا لیے گئے ہیں۔

اس شہر کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا تقریباً نا ممکن ہو چکا ہے۔ اسی طرح لاہور کی آبادی بھی دو ڈھائی کروڑ کے قریب ہونے والی ہے۔

یہ شہر بھی اتنی آبادی کا متحمل نہیں ہو سکتا' اس شہر کی زمین کچی اور مٹی والی ہے' خشک موسم میں اس شہر پر گرد کے بادل چھا جاتے ہیں ' شہر کے گرد دیہات ختم ہو گئے ہیں 'سبزہ اور درخت ختم ہو گئے ہیں ' اگر یہی حال رہا چند سالوں بعد لاہور شہر بھی رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔