حکمران طبقہ اور عوامی مفادات کا ٹکراؤ
سیاسی اشرافیہ آج کی جدید ضرورتوں کے تحت اپنی حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں
پاکستان کی سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی کے تناظر میں عوامی مفادات پر مبنی سیاست اور معیشت کہیں پیچھے چلی گئی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج عوامی مفادات کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے کے بجائے طاقت کا مرکز طاقت ور طبقات کے اردگرد ہی گھومتا ہے۔
اسی بنیاد پر طاقت ور طبقہ مزید طاقت ور اورکمزور طبقہ مزید کمزور ہورہا ہے ۔ یہ طرز عمل حکمران طبقات اور عوام میں نہ صرف ایک بڑی خلیج کو پیدا کررہا ہے۔
جمہوری نظام کی ساکھ کی بڑی کنجی کو ہم عوامی مفاد کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں ۔لیکن لگتا ہے کہ ہماری جمہوری سیاست میں سب کچھ ہے مگر عوامی مسائل اور ان کا موثر شفاف حل کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔اس وقت بھی قومی سیاست میں موجود تمام طاقت کے فریقین میں جو محاذآرائی کا ماحول ہے اس میں ذاتیات پر مبنی سیاست یا اقتدار کی کشمکش کا پہلو زیادہ غالب نظر آتا ہے۔
ایک طرف قومی سیاست، معیشت اور ادارہ جاتی سطح پر بدحالی کا منظر ہے تو دوسری طرف ہماری طاقت ور اشرافیہ جس میں سب طبقات شامل ہیں ان کا شاہانہ حکمرانی کا انداز شفاف حکمرانی کے تناظر میں ایک سنگین مذاق لگتا ہے ۔
حال ہی میں جس بے دردی سے ارکان اسمبلی کو سیاسی رشوت کے طور پر ترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے دیے گئے ہیں یا جس انداز سے پنجاب میں سرکاری افسران کے لیے اربوں روپوں کی قیمتی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں وہ ایک کھلا تضاد ہے ۔ہم نہ تو اپنی حکمرانی کے شاہانہ انداز بدلنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی ہم حکمرانی کے نظام میں موثر اور شفاف اصلاحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانی کے نظام کی کنجی عام آدمی نہیں بلکہ طاقت ور اشرافیہ ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جو بھی قانون سازی یا پالیسی سازی سمیت وسائل کی تقسیم کا معاملہ ہے اس میں ہمیں عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور اشرافیہ ہی غالب نظر آتی ہے ۔
سیاسی نظام پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے ۔ سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف کا حصہ ہوں کسی کے پاس ایسا کوئی واضح اور شفاف روڈ میپ نہیں جو لوگوں میں بحران کے حل میں اعتماد کو بحال کرسکے ۔یہ جو ہم ریاستی ، حکومتی اور اداروں کے وسائل کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس میں سے عام آدمی کو نظر انداز کرتے ہیں۔
اس سے عام آدمی کا جمہوری مقدمہ کیسے مضبوط ہوسکے گا۔ایک طرف آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی اداروں اور برادر اسلامی ممالک سے معاشی امداد یا بھیک کی درخواستیں تو دوسری طرف ملنے والے ان مالیاتی وسائل کا بے دریغ ذاتی استعمال ہمارے داخلی حکمرانی کے تضادات کو نمایاں کرتا ہے ۔
عام آدمی کا مسئلہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بدترین سطح پر موجود بے روزگاری ، پٹرول ،ڈیزل ، تیل ، ادویات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اور بے جا اضافہ ،بدترین لوڈ شیڈنگ، روزگار کا عدم تحفظ، تعلیم اور صحت یا ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور سب سے بڑھ کر آمدن اور اخراجات میں عدم توازن نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارا مجموعی حکمرانی کا نظام عام، کمزور اور محروم طبقات کی آنکھ سے معاملات کو دیکھنے سے قاصر ہے ۔ ان کی نظریں یا تو بالائی طبقہ کی طرف جاتی ہیں یا وہ خود کو ذاتیات کی حد تک محدود رہتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جو بھی قانون سازی ہورہی ہے وہ عام آدمی کو عملًا طاقت دینے سے محروم ہے ۔
خاص طور پر ہمارے یہاں دیہی اور شہری تقسیم بڑھ رہی ہے، عام مڈل کلاس جس بڑے بحران سے گزررہی ہے اس کا علاج ہماری حکمرانی کے نظام میں نظر نہیں آرہا ۔ جمہوریت ہو یا کوئی بھی سیاسی ، سماجی اور معاشی نظام اگر اس میں لوگوں کو ریلیف نہیں ملے گا تو لوگ کیونکر نظام کے ساتھ اپنی جڑت کو قائم رکھیں گے۔
ہمارا حکمرانی کا نظام لوگوں کو باعزت روزگار دینے یا ان کو معاشی استحکام دینے کے بجائے ان میں خیراتی منصوبوں کی بنیاد پر مستقل بھکاری یا ان کو معاشی طور پر مفلوج بناتا ہے۔
خیراتی منصوبوں پر اربوں روپے لگا کر ہم چھوٹی اور معاشی صنعت کاری کو فروغ دینے سے گریز کرتے ہیں ۔حالانکہ دنیا میں بیشتر ممالک میں گھروں اور محلوں کی سطح پرمقامی صنعت کو فروغ دے کر مقامی لوگوں کو معاشی طور پر مستحکم کرتے ہیں ۔لیکن سیاسی اور معاشی دوراندیشی کے فقدان نے ہمیں اور زیادہ کمزور کردیا ہے ۔
ایک سنگین مسئلہ حکومتی اداروں بالخصوص سروسز یا سہولیات سے جڑے اداروں کی عدم فعالیت کا ہے۔ جب ہمارے پبلک سیکٹر کے ادارے فعال اور شفاف نہیں ہونگے تو ہم لوگوں کو جان بوجھ کر نجی شعبوں تک محدود کررہے ہیں جن میں خاص طور پر تعلیم اور صحت کا شعبہ شامل ہے ۔
لوگوں کی مقامی سطح پر حکومتی یا سروسز کے اداروں تک رسائی کا نہ ہونا ، عدم شفافیت اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے ان کی خاندانی زندگی میں مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔عام آدمی کی حکمرانی میں شفافیت کے لیے مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کا نہ ہونا یا عدم موجودگی بھی مقامی مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے ۔
لیکن یہاں طاقت ور سیاسی اشرافیہ آج کی جدید ضرورتوں کے تحت اپنی حکمرانی کے نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں ۔کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ ان بڑی تبدیلیوں کے نتیجے میں ان کی حکمرانی کا نظام کمزور ہوتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اول تو اصلاحات سے گریز کیاجاتا ہے اور اگر اصلاحات چند بڑے دباؤ کی صورت میں کرنا بھی پڑے تو اس پر عملدرآمد کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکمرانی کے نظام میں طاقت ور سیاسی اشرافیہ اور عام آدمی کے درمیان مفادات کا جو ٹکراؤ ہے اس کا علاج کیسے ممکن ہوگا۔ عمومی طور پر دلیل یہ ہی دی جاتی ہے کہ جمہوری نظاموں میںاصلاحات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھا جاتا ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم نظام میں بہتری کے امکانات کو پیدا کرتے ہیں ۔
لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم نے اصلاحات کو کبھی ترجیح نہیں دی اور نہ ہی وہ ترقی و خوشحالی کے متبادل راستے اختیار کیے ہیں جو آج ہماری قومی ضرورت بنتے ہیں ۔ ایسے لگتا ہے کہ ہم ترقی کے عملی مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ہم عملا روائتی ترقی کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔
حالانکہ روائتی اور فرسودہ طریقہ کار کی ترقی کا ماڈل ہمیں نہ تو پہلے کچھ دے سکا ہے اور نہ ہی اب یہ آگے جاکر دے سکے گا۔ ہمیں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے لیے بنیادی نوعیت کی اصلاحات سمیت پورے سیاسی ، انتظامی اور قانونی ڈھانچوں سمیت معاشی میدان میں غیر معمولی تبدیلیاں لانا ہیں ۔
یہ کا م کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی کوئی ذمے داری کسی ایک فریق پر عائد ہوگی۔ مجموعی حکمرانی کے نظام میں مثبت اور شفاف تبدیلی کے لیے ہمیں متفقہ اور مشاورت کی بنیاد پر روڈ میپ درکار ہے۔ اس کے لیے تمام فریقین کو اپنی اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹنا ہوگا اور ایک دوسرے کی قبولیت اورافادیت کے ساتھ متبادل راستہ کو ہی اختیار کرنا ہوگا ۔
مسئلہ صرف عام یا کمزورآدمی کا ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے ریاستی اور حکمرانی کے نظام کی ساکھ سے جڑا ہوا ہے اور اگر ہم نے اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانا ہے اور ریاست و عوام کے باہمی تعلق کو مضبوط بنانا ہے تو ہمیں واقعی کچھ نیا کرکے دکھانا ہوگا۔
یہ نظام بڑی تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر ہماری سیاسی اشرافیہ یا طاقت کے مراکز اس تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہونگے اور نہ ہی وہ اس تبدیلی کی شدت کو محسوس کریں گے تو اس سے ایک بڑا بگاڑ معاشرے میں مزید پیدا ہوگا۔ یہ عمل لوگوں میں انتہا پسندی ، شدت پسندی اور لاتعلقی کے احساس کو نمایاں کرے گا جو ہمارے لیے مزید مسائل کو پیدا کرے گا۔