مدینہ منورہ میں چند روز اور وزارت مذہبی امور سے گزارش
سعودی عرب حقیقی معنوں میں بدل رہا ہے اور اس تبدیلی کے آثار نظر بھی آرہے ہیں، مہنگائی کے اثرات واضح ہیں
کئی برس کے بعد سعودی عرب پہنچنے پر حقیقی تبدیلی اور آزادی کا احساس ہوا ہے۔ مدینہ منورہ ائر پورٹ پر ہی تبدیلی نظر آگئی ، مرد اور خواتین اکٹھے کا کام کر رہے تھے، امیگریشن کا زیادہ تر عملہ خواتین پر مشتمل تھا جو نہایت خوش اخلاقی اور متحرک انداز سے ڈیوٹی انجام دے رہی تھیں۔
اس سے پہلے جب بھی سعودی عرب کے ایر پورٹس پر آمد ہوتی تھی تو طویل قطاروں میں انتظار کی کوفت اٹھانا پڑتی تھی لیکن اس دفعہ تبدیلی کا تجربہ خوشگوار رہا اور چند ہی منٹوں میں امیگریشن کے عمل سے فارغ ہو گئے اور سامان اٹھا کر ائر پورٹ آمد لاؤنج میں پہنچ گئے جہاں پر رات گئے ہمارے پی آئی اے کے دوست شفقت نیازی نے سواری کا بندوبست کر رکھا تھا، یوں ہم فجر کی نماز سے قبل ہوٹل میں سامان رکھ کرتہجد کے وقت مسجد نبویﷺ پہنچ گئے۔
اس دربار میں حاضری ہر مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ جب تک یہاں سے بلاوا نہ ہو انسان یہاں نہیں پہنچ سکتا ۔میرا بلاوا بھی آٹھ سال کے بعد آیا ہے۔
نبی پاک ﷺ سے صحابہ کرام ؓنے جب سوال کیا کہ جنت کیسی ہو گی تو آقائے دوجہاں ﷺ نے جواب دیا کہ میرے ہجرے اور منبر کے درمیان جو جگہ ہے یہ جنت کا ٹکڑا ہے۔
مدینہ منورہ پہنچنے والے ہر زائر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ریاض الجنت میںنوافل ادا کرے۔ مسجد انتظامیہ نے رش کی وجہ سے موبائل فون کی ایک ایپلی کیشن متعارف کرادی ہے جس سے ریاض الجنت میں عبادت کا وقت لیا جاسکتا ہے۔
عمرہ زائرین سعودی عرب پہنچ کر وقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اکثر اوقات یہ مشکل سامنے آتی ہے کہ فیملی میں سے مرد وں کو تو وقت مل جاتا ہے لیکن خواتین کو وقت نہیں مل پاتا،اس مشکل کا مجھے بھی سامنارہا اور جو دن مدینہ منورہ میں گزارنے تھے ا ن دنوں میںریاض الجنت میں خواتین کے لیے وقت دستیاب نہیں تھا لیکن جس ذات اقدس نے بلایا تھا ان کی بے پایاں رحمت اور کرم سے یہ مشکل بھی آسان ہو گئی ۔
اس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ جیسے ہی ویزہ لگ جائے اور پرواز کی بکنگ ہو جائے تو فوراً ہی ریاض الجنت میں عبادات کے لیے پاکستان سے روانگی سے قبل ہی وقت لے لینا چاہیے۔ عمرہ زائرین جو اس برس مدینہ پہنچ رہے ہیں ان کو ٹریول ایجنٹس وہ رہنمائی فراہم نہیں کر رہے جو ان کی عبادات کے لیے انتہائی ضروری ہے، اگر پاکستان سے روانگی سے قبل ہی زائرین کو ضروری معلومات فراہم کر دی جائیں تو زائرین کو عبادات میں آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
مدینہ منورہ میں چند روز گزارنے کا موقع ملاتومشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان روشن خیالات کے مالک ہیں جو سعودیہ کو ترقی کی جانب بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے انھوں نے ویزہ کے حصول میں بہت زیادہ آسانیاں فراہم کر دی ہیں اور اب عمرہ زائرین بھی سعودی عرب کے کسی بھی شہر میں جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ سیاحتی ویزوں کا اجراء بھی شروع کر دیا گیا ہے یعنی مملکت سعودیہ میں آنے والے اب آزادانہ طور پر کسی بھی شہر کی سیاحت کر سکتے ہیں ۔ ان آزادانہ سہولتوں سے عمرہ زائرین جو پہلے صرف مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور جدہ تک محدود رہتے تھے، اب وہ زیارات کے لیے طائف، مقام بدر اوردوسرے مقامات کا بھی سفر کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب حقیقی معنوں میں بدل رہا ہے اور اس تبدیلی کے آثار نظر بھی آرہے ہیں، مہنگائی کے اثرات واضح ہیں، ہر خریداری پر پندرہ فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے، پٹرول کی قیمت جو پانی کے ایک لیٹر سے کہیں کم ہوتی تھی، اب بڑھ گئی ہے۔ روپے کے مقابلے میں ریال کی بڑھتی قیمت نے بھی پاکستانی زائرین کی قوت خریداری کومتاثر کیا ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں تقریباً دگنی ہو چکی ہیں۔ لہٰذا میرے جیسے جو زائرین طویل مدت کے بعد سعودیہ کا سفر کر رہے ہیں، ان کو اپنا بجٹ بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مطابق ترتیب دینا چاہیے۔
امسال سعودی حکومت نے حجاج کرام کی موجودگی کے دوران ہی عمرہ ویزوں کا اجراء شروع کر دیا ہے، آج دو اگست کو حجاج کرا م آخری پروازوں سے مدینہ منورہ سے اپنے وطن روانہ ہو رہے ہیں۔ میرے دیرینہ مہربان جاوید اقبال بٹ صاحب جو گزشتہ پینتیس برس سے مدینہ منورہ کی پر نور فضاؤں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حجاج کرام اپنی وزارت کے انتظامات سے شاکی رہتے ہیں خاص طور پر رہائش کا مسئلہ رہا، حرم سے دور رہائش کی وجہ سے حجاج کو حرم پہنچنے میں مشکلات درپیش رہیں ۔ لیکن ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ چونکہ مسجد نبوی ﷺ کے چاروں جانب توسیع کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے اور خادمین حرمین شریفین کی یہ انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ متعمرین اور زائرین کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں اس کے لیے ہر سال ایک کثیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔
سعودی حکومت نے مسجد نبوی کی توسیع کے سلسلے میں جس پروجیکٹ کا آغاز کر رکھا ہے اس کی وجہ سے بھی قریب کی عمارتیں خالی کرالی گئیں ہیں اور یوںحجاج کی رہائش گاہیں دور منتقل ہو گئیں، اس توسیع کی زد میں پاکستان ہاؤس کی عمارت بھی آگئی ہے۔
عارضی طور پر پاکستان ہاؤس کو کرائے کی ایک عمارت میں شفٹ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مدینہ منورہ میں دوبڑی بلڈنگز پاکستان ہاؤس کے طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت تھیں لیکن ایک بلڈنگ پہلے ہی حرم کے توسیعی منصوبے کی زد میں آگئی جس کی مارکیٹ سے کئی گنا زائد قیمت سعودی حکومت نے پاکستا ن کی وزارت مذہبی امور کو ادا کی اس رقم کے بدلے دو بلڈنگز خریدی جا سکتی تھیں لیکن ایک بھی نہ خریدی گئی اور اب جو بلڈنگ بچ گئی تھی۔
وہ بھی توسیع کی وجہ سے گرائی جا رہی ہے، وزارت مذہبی امور کے حکام سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ خدارا پاکستان ہاؤس کی مدینہ منورہ میں عمارت کی خریداری میں تاخیر ہر گز نہ کریںجس پر پاکستان کا پرچم لہراتا رہے۔