اربوں روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ نہ ملنے سے انڈسٹریل ایکسپورٹ متاثر ہونے لگی
سیلز ٹیکس رولز 2006ء کے قاعدہ 39F کے مطابق 72 گھنٹوں کے اندر زیر التواء سیلز ٹیکس کی رقم مل جانی چاہیے، ایکسپورٹرز
برآمد کنندہ صنعتی شعبے نے ایف بی آر کے پاس پھنسے ہوئے اربوں روپے مالیت کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگیوں کو برآمدی سرگرمیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے دیا۔
ٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ ریفنڈز کی عدم ادائیگیاں برآمد کنندگان کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔ ٹی ایم اے کا کہنا ہے کہ ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز کے لیے سیلز ٹیکس رولز میں بتائے گئے سیلز ٹیکس کی اپنی رقم بروقت واپس حاصل کرنا بہت ضروری ہے یعنی سیلز ٹیکس رولز 2006ء کے قاعدہ 39F کے مطابق 72 گھنٹوں کے اندر زیر التواء سیلز ٹیکس کی رقم کی ادائیگی کرنا ہیں۔
ٹیکسٹائل سیکٹر برآمد کنندگان جی ایس ٹی ریفنڈز میں غیر ضروری تاخیر سے انتہائی پریشان ہیں جو ان کے لیکویڈیٹی کے مسائل کا باعث بن رہے ہیں۔ جولائی 2019ء سے جب پانچ زیرو ریٹڈ ایکسپورٹ سیکٹرز کی سخت مزاحمت کے باوجود 17 فیصد جی ایس ٹی نافذ کیا گیا۔ اب حکومت پاکستان نے جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی ہے۔
ٹی ایم اے کا کہنا ہے کہ بیشتر برآمد کنندگان کو اپنے ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے داخل کرنے میں بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور انہیں اپنے ماہانہ گوشوارے جمع کرانے میں غیر ضروری تاخیر کے ساتھ برآمد کنندگان کے سسٹم ڈیفرڈ کلیم کی رقم کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ذہنی کوفت کا باعث ہے کیونکہ پانچ زیرو ریٹڈ سیکٹرز کے اربوں روپے پہلے ہی ایف بی آر کے پاس پھنسے ہوئے ہیں،یہ نازک صورتحال ملکی برآمدات میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ٹی ایم اے کا کہنا ہے کہ وقتاً فوقتاً مختلف ایکسپورٹ اورینٹڈ ایسوسی ایشنز کی جانب سے برآمدی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو زیرو ریٹنگ اسٹیٹس ''نو پیمنٹ نو ریفنڈ سسٹم'' کی بحالی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کیونکہ ایکسپورٹرز کبھی بھی حکومت پاکستان کو سیلز ٹیکس ادا کرنے اور پھر ریفنڈ کی بھیک مانگنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ٹی ایم اے کا موقف ہے کہ ایکسپورٹرز جی ایس ٹی ریفنڈز کے لیے اپنے وسائل اور وقت ضائع کررہے ہیں۔ ٹی ایم اے نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ برآمدی شعبوں کے لیے SRO 1125(I)/2011 کو اس کی حقیقی روح میں بحال کرے جو برآمد کنندگان کے لیے ایک بہت بڑا ریلیف ہوگا۔