یوکرین بڑی تباہی سے دوچار
یوکرین ابھی تک نیٹو کا ممبر بھی نہیں بنا اور صدر زیلنسکی نے اپنا ملک تباہ کروا دیا ہے
روس یوکرین جنگ کو تقریباً ڈیڑھ سال ہونے کو ہے لیکن اس کے ختم ہونے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آ رہے۔روس رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔فوجی قوت کے لحاظ سے یہ دنیا کی تین سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے۔
امریکا کے بعد روس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔بے شمار وسائل کا حامل یہ ملک اناج میں خود کفیل ہی نہیں ، یہ دوسرے ممالک کو اناج برآمد کرتا ہے۔ جنگ سے پہلے یورپ کی توانائی کی اکژ ضرورتیں روس ہی پوری کر رہا تھا۔
اس ملک کو اپنی فوجی قوت پر اتنا زعم ہے کہ اس کی صرف ڈیڑھ لاکھ فوج نے چار لاکھ فوج رکھنے والے ملک یوکرین پر حملہ کر دیا۔یوکرین کے پاس بھی بے شمار وسائل ہیں لیکن فوجی قوت کے لحاظ سے روس کے مقابلے میں یوکرین کی کوئی حیثیت نہیں۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو روس ابھی تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
روس نے یہ فوجی آپریشن شروع کر کے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس پر کڑی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد روس نے کوئی بڑی جنگی کامیابی حاصل نہیں کی ۔روس یوکرین جنگ شروع ہونے کے دو ہفتے بعد روسی افواج یوکرین کے دارالحکومت کیئف سے صرف بارہ سے بیس کلو میٹر دور تھیں جب کہ پانچ سو دن گزرنے کے بعد وہی روسی افواج کیئف سے سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
ویگنر گروپ کے سربراہ پروگزین نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے روسی صدر پیوٹن کو باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ روسی جرنیل جنگ کو خواہ مخواہ طول دے کر اپنے ہی ملک کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔پروگوزین کی باتوں میں بڑا وزن ہے۔
روس کے خلاف برسرِپیکار یوکرینی افواج کو 15ملکی فارن لیجن کی مدد حاصل ہے۔امریکا،کینیڈا اور برطانیہ سمیت پندرہ ممالک کے سابقہ فوجی اور لڑنے والے رضاکار یوکرینی فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔
چند دن پہلے فارن لیجن کے ایک رضاکار نے امریکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کوئی دو مہینے پہلے ایک محاذ کی طرف جا رہا تھا تو اسے تعجب ہوا کہ یوکرینی فوجی اور فارن لیجن سے منسلک افراد ٹرین میں سفر کر رہے ہیں۔یوکرین کے اندر ہر کہیں انٹر نیٹ کی سہولت موجود ہے۔بجلی کی سپلائی بھی بلا تعطل موجود ہے۔
جنگ زدہ ممالک میں ایسا نہیں ہوتا،اسی فرد نے بتایا کہ ہم جب عراق،شام یا لیبیا گئے تو ہم نے سب سے پہلے ان سہولتوں کو نشانہ بنایا۔جنگ شروع ہونے کے بعد کم از کم چھ مہینے تک روس کو یوکرین کی فضاؤں میں کسی بھی چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔روسی فضائی افواج کو یوکرین کی فضا پر مکمل کنٹرول حاصل تھا پھر بھی کیئف کی تمام اہم عمارتیں سلامت ہیں۔
روسی افواج نے یوکرینی زندگی بڑے پیمانے پر درہم برہم نہیں کی۔یوکرین کو مہلک جدید ہتھیاروں کی سپلائی جاری ہے۔روس نے یوکرین کو مہلک ہتھیاروں کی سپلائی پوری قوت سے کیوں نہیں روکی۔اگر روس سپلائی روک سکتا تھا اور نہیں روکی تو جنگی پہلو سے یہ ایک غلط حکمتِ عملی ہے یا پھر روس ہتھیاروں کی سپلائی روکنے کی اہلیت سے ہی عاری تھا۔
یہ جنگ صرف اس لیے جاری ہے کہ امریکا صدر پیوٹن کو تباہ کر کے روس میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتا ہے اور یہ کہ یوکرینی صدر زیلنسکی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں،اس کے لیے مغرب کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو کا مکمل ممبر بن جائے۔صدر زیلنسکی یہ نہیں دیکھ رہے کہ یوکرین تباہ و برباد ہو رہا ہے۔
ابھی چند روز پہلے برطانیہ کے مشہور اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس میں کہا گیا کہ مغرب متحیر نظروں سے یوکرین کی تباہی کو دیکھ رہا ہے۔اخبارکے مطابق یوکرینی افواج کا پانچواں counter offensiveناکام ہو چلا ہے۔اس حملے میں یوکرین کے کم و بیش26ہزار فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اخبار کے مطابق یوکرین کی شکست صاف دکھائی دے رہی ہے۔بلیک سی یعنی بحیرۂ اسود پر یوکرینی بندرگاہ اوڈیسا بہت اہمیت کی حامل ہے۔روس اور یوکرین دونوں وافر مقدار میں اناج پیدا کرتے ہیں۔یوکرین اسی بندرگاہ سے اپنا اناج باہر بھیجتا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام،یوکرین سے گندم خرید کر خوراک کی کمی کے شکار غریب ممالک کو یہ گندم مہیا کرتا ہے۔ تنازعہ شروع ہونے سے یوکرین سے دوسرے ممالک کو سپلائی رک گئی ہے۔
پہلے ایک معاہد ے کی رو سے روس نے سپلائی کی اجازت دے دی تھی بشرطیکہ بحری جہاز خالی اوڈیسا آئیں اور اناج بھر کر لے جائیں لیکن بعد میں روس کو معلوم ہوا کہ دراصل بحری جہاز خالی نہیں آ رہے بلکہ ان جہازوں میں یوکرین کے لیے مہلک اور جدید اسلحہ اوڈیسا پہنچایا جا رہا ہے۔روس نے اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کر کے اوڈیسا کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
مغربی میڈیا نے اس کی تصدیق کی ہے کہ اوڈیسا میں خوراک ذخیرہ کرنے کے اکثر گودام بالکل تباہ ہو گئے ہیں۔یوکرین کو اب اپنی گندم خشکی کے راستے پولینڈ سے گزار کر بالٹک بندرگاہوں تک پہنچانی ہو گی۔گندم کا بحران پیدا ہو گا اور قیمتیں مزید اوپر جائیں گی۔
محاذِ جنگ پر لڑنے والے یوکرینی فوجی بہت مشکل میں ہیں۔روس نے یوکرینی counter offensiveکو ناکام بنانے کے لیے اپنے آپ کو قلعہ بند کر لیا ہے۔یوکرینی افواج چونکہ حملہ آور ہو رہی ہیں اس لیے ان کا نقصان بھی بہت ہو رہا ہے۔یوکرین کی چار لاکھ فوج میں سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار فوجی مر چکے ہیں اور دو لاکھ کے قریب زخمی ہیں۔
یوکرین کے اسپتال بھرے پڑے ہیں۔یوکرین دو دفعہ ایک ایک لاکھ کی بھرتی کر چکا ہے۔جنگ کے دوران تازہ بھرتی خاص سود مند نہیں ہوتی۔نئی فوجی یونٹ قائم کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے اور تازہ دم نوجوان کو سخت تربیت کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے ۔روس کے شدید حملوں کی وجہ سے زخمی یوکرینی فوجیوں کو محاذِ جنگ سے نکال کر اسپتال پہنچانا بہت مشکل ہو رہا ہے۔
ایسے میں یوکرینی فوجیوں کے سامنے دو ہی آپشنز ہیں۔پہلا یہ کہ وہ زخمی ہونے کے بعد وہیں رہیں اور مر جائیں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ روسی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیںاور جنگی قیدی بن جائیں۔یوکرین کے اکثر زخمی قیدی بننا پسند کرتے ہیں کیونکہ روس نے اب تک یوکرینی فوجی قیدیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کیا ہے۔
روس یوکرین جنگ میں یوکرین تباہ ہو رہا ہے۔کسی بھی خود مختار ملک کے اوپر مسلح جارحیت ناقابلِ معافی جرم ہے لیکن کسی ملک کو یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ پڑوسی ملک کی سیکیورٹی کو داؤ پر لگائے۔یوکرین کے نیٹو ممبر بننے سے نیٹو افواج روس کی سرحد پر آ جاتی ہیں اور روس کی سیکیورٹی کو شدید خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
روس کا صرف اتنا مطالبہ ہے کہ یوکرین نیٹو کا ممبر نہ بنے۔ اپریل2022 میں دونوں ملک جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن برطانوی وزیرِ اعظم کیئف پہنچے اور زیلنسکی کو جنگ جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔
یوکرین ابھی تک نیٹو کا ممبر بھی نہیں بنا اور صدر زیلنسکی نے اپنا ملک تباہ کروا دیا ہے۔مغرب کے لیے صدر زیلنسکی کی افادیت تب تک ہے جب تک یہ جنگ جاری ہے۔ادھر زیلنسکی کے اقتدار کے لیے بھی یہ جنگ ضروری ہے۔امریکا اس جنگ کے ذریعے روس کو ایک قوت کے طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔تمام مغربی دنیا نے روس کو دبوچنے کے لیے اپنے خزانے اور اسلحہ خانوں کے دروازے کھول رکھے ہیں۔حالیہ دنوں میں پولینڈ نے بیلا روس کے کچھ حصوں پر اپنا حق جتایا ہے۔
خدشہ ہے کہ کوئی ایک چھوٹی سی غلطی بھی جنگ کا دائرہ وسیع نہ کر دے۔روسی صدر پیوٹن کے اقتدار کے لیے بھی یہ جنگ اہم ہے۔جنگ میں شکست انھیں اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔مغربی یورپی ممالک یوکرین کی مدد تو کر رہے ہیں لیکن سہمے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ جنگ پھیل کر پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ایشیا اور افریقہ کے لیے یہ بات انتہائی خوش آیند ہے کہ وہ اس جنگ کا ایندھن بننے سے بچے ہوئے ہیں۔