مغربی ممالک کی ناپاک جسارت

سب سے اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ امت مسلمہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے


Naseem Anjum August 06, 2023
[email protected]

قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے، اس مبارک و مقدس کتاب میں تینوں آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی تعلیمات شامل کی گئی ہیں، تورات، انجیل، زبور میں بھی اللہ کی حقانیت بیان کی گئی ہے۔

طلوع اسلام سے قبل آنیوالے انبیا علیہ السلام نے اللہ کی وحدانیت کی تعلیم سے لوگوں کو آشنا کیا اور ان کی امتوں کے بہت سے لوگوں نے اللہ وحدہ لاشریک کی شان کریم اور ربوبیت کو دل اور زبان سے قبول کیا لیکن جو لوگ ایک اللہ پر ایمان نہیں لائے اور انھوں نے نبیوں کو قتل کیا، ان پر ظلم ڈھائے وہ لوگ جہنم کے حقدار ٹھہرے، بعد مرنے کے بھی دوزخ کی بھڑکتی آگ ان کی نگاہوں کے حصار میں ہوگی، اللہ کے منکر اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد زندہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ لیکن وہ ان حقائق سے بے خبر اور سچ جاننے سے قاصر ہیں کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں فرما دیا کہ ''یہ قرآن ان لوگوں کے لیے دانائی ہے، رحمت ہے اور جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔''

''بے شک اس قرآن پاک کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔'' (سورۃ الحجر، آیت 9) قرآن وہ کتاب ہے جو سینہ بہ سینہ تاقیامت منتقل ہوتی رہے گی، کفار بھی اپنی مذموم حرکتوں سے باز آنیوالے نہیں ہیں، آئے دن قرآن کی نعوذباللہ بے حرمتی کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اسلامی ممالک احتجاج کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں 7 جولائی 2023 کو سویڈن میں ایک عراقی شخص نے عیدالاضحی کے روز دارالحکومت اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کیا۔ اس کا نام سلوان مومیکا ہے جو پانچ سال قبل ایک تارکِ وطن کی حیثیت سے سویڈن آیا تھا، وہ ملحد ہونے کا دعویدار ہے اس نے ایک انٹرویو دیتے ہوئے قرآن پاک کی تعلیمات پر پابندی لگانے کے لیے کہا۔ سویڈن میں اس واقعے سے قبل بھی کئی بار ایسی ناپاک جسارت کی جا چکی ہے۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، اسلامو فوبیا پر تحقیق کی ہے، ان محققین میں سے عبدالقادر این جی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا، افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ مسلمان خود بھٹک گئے ہیں اورگمراہ ہو چکے ہیں لہٰذا ایسی صورت حال میں 35 فی صد سویڈش مسلمانوں کے مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات ہیں، اسی حوالے سے جوڈی صفین برکلے نے اپنے سیاسی تجزیے میں لکھا ہے کہ '' اسلاموفوبیا صرف سویڈن میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔''

انھی افسوس ناک حالات کے تناظر میں قائد اعظم رائٹرزگلڈ کے روح رواں اور صدر جناب جلیس سلاسل نے ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد کیا۔ خواجہ رضی حیدر کی صدارت میں یہ فکر انگیز تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے ارکان نے قرآن کریم کی یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں بے حرمتی پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

قائد اعظم رائٹرز گلڈ کے صدر جلیس سلاسل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کے انسانوں کی تین چوتھائی یعنی کہ 75 فی صد آبادی کی زندگی میں ان کے اپنے اپنے مذہب کی سب سے زیادہ اہمیت ہے اور اس کی تعلیمات جو ان کی کتابوں بالخصوص آسمانی کتابوں میں جن کے وہ پیروکارکہلاتے ہیں اس کو بھی مقدس سمجھتے ہیں، مسلمانوں کے لیے اپنا مذہب (دین) اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے اسی وجہ سے وہ اپنے پیارے نبی ﷺ اور اللہ کی آسمانی کتاب قرآن پاک کے لیے اپنا جان و مال بھی وقت پڑنے پر قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے، بلکہ سعادت سمجھتے ہیں۔

مسلمان آخری نبی ﷺ کی توہین، تحقیر اور قرآن کریم کی نعوذباللہ پامالی و تذلیل کے خلاف جہاد کرنا اپنا حق اور فرض سمجھتے ہیں۔ اسی ماہ جولائی میں عیدالاضحی کے موقع پر ایک ملعون سلوان مومیکا جرائم پیشہ عراقی فرار ہو کر سویڈن میں پناہ گزیں تھا، اس نے قرآن پر پابندی لگانے کا علم اٹھایا اور اس جاہل متعصب شخص نے قرآن پاک کو انسانیت دشمن کتاب قرار دیا۔ اس بدبخت اور جہنمی نے عیدالاضحی کے دن کا انتخاب کیا، جلیس سلاسل نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ اس نے اوراق مقدسہ کو کس انداز سے نذر آتش کیا، میں یہ جملے لکھنے سے قاصر ہوں۔

انھوں نے مزید کہا کہ قرآن سوزی کے واقعہ کے فوراً بعد او آئی سی کے چیئرمین اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ اہل مغرب کو سبق سکھائیں گے کہ مقدس کتاب اور عام کتاب میں کیا فرق ہے، قرآن کی بے حرمتی امت مسلمہ کو ہرگز برداشت نہیں، ترکیہ اس عمل کا سخت جواب دے گا۔صدر محفل خواجہ رضی حیدر نے صدارتی خطبے میں کہا کہ مسلمانوں اور خصوصاً مسلم حکمرانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے، پاکستان اور دوسرے ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے، یورپی یونین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قرآن سوزی کا عمل یورپی یونین کی رائے کی ہرگز عکاسی نہیں کرتا ہے۔

روسی صدر پیوٹن نے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی اس طرح کی کہ اس دل خراش واقعے کے بعد روس کی سب سے قدیم مسجد گئے جہاں انھیں قرآن پاک کا نسخہ تحفے میں پیش کیا گیا، انھوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم مسلمانوں کے نزدیک مقدس کتاب ہے۔ یہ لوگ دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام نہیں کرتے اور پھر ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ کوئی جرم نہیں۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل تھی کہ حاضرین کی تعداد بارش اور موسم کی سنگینی کے باوجود بہت زیادہ تھی اور یہود و نصاریٰ کی طرف سے آئے دن مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی ناپاک جسارت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم بھی کیا گیا۔

راقم نے کہا کہ سب سے اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ امت مسلمہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرے تاکہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے نقش قدم پر چلنے والی جری اور بہادر قوم سامنے آئے اور سلطان صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کی طرح آج کے نوجوان مردِ مجاہد کا کردار ادا کرسکیں لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت کا تعاون ازحد ضروری ہے۔

یہ مسئلہ ہمارے ہی ملک کا نہیں ہے کہ یہاں کی حکومتیں سنجیدہ اقدام پر غور نہیں کرتی ہیں بلکہ بیرونی ملکوں میں افسوس ناک اور اشتعال انگیز بیان کی حقیقت اتنی ہی ہے کہ یہ سب بیانات وقتی ابال کی مانند ہیں۔ جہاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اس ناپاک جسارت کے بعد سویڈن جنگ کی صف میں آگیا ہے وہاں سویڈن کے نوجوان احمد علوش نے انوکھا اور شرم دلانے والا طریقہ اپنایا اور انھوں نے عدالت سے اجازت لے کر بائبل اور انجیل جلانے کا عزم کیا لیکن احمد نے عین اس وقت اپنا لائٹر پھینک دیا اور بائبل اور تورات جلانے سے انکارکردیا کہ وہ ایک مسلمان ہیں اور مسلمان ایسا نہیں کرسکتے۔

ان کا مقصد دنیا کو سبق سکھانا تھا لیکن اسلام دشمنوں کو شرم آئی اور نہ سبق سیکھا بلکہ انھوں نے بار، بار اس ناپاک جسارت کو عملی جامہ پہنایا اور ڈنمارک نے بھی شرم ناک عمل میں حصہ لیا، قرآن کی دوبارہ بے حرمتی پر عراق نے سویڈن کے سفیرکو ملک بدرکر دیا۔ غیور مسلمان اس بات پر غیر مسلموں کو ضرور سبق سکھائیں گے اور دنیا تیسری جنگ کی طرف آگے بڑھے گی۔ حالات ایسے ہی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ظالموں اور شر پسندوں کے لیے دہکتی ہوئی جہنم تیار رکھی ہے جس میں ضرور ڈالے جائیں گے، یہ اللہ کا وعدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں