ماہ اگست کا جگمگاتا دیپ
وہ اسپتال نہیں جانا چاہتی تھی اور میں بھی اپنی بیٹی کے اس عمل پر مطمئن تھی کہ وہ جیسا پسند کرے
ان کے بائیں ہاتھ پر بینڈیج بندھی ہوئی تھی۔
''کیا آپ کے ہاتھ میں فریکچر ہو گیا تھا؟'' سوال سیدھا سا تھا پر جواب۔۔۔
''جی نہیں۔'' وہ ذرا مسکرائیں۔ ''میرا ہاتھ سوج جاتا ہے تو میں اس طرح پٹی باندھ لیتی ہوں۔''
''لیکن کیسے۔۔۔ مطلب ایسے ہی سوج جاتا ہے کیا؟'' ازحد حیرت تھی۔
''دراصل میرے دل کا ایک والو کمزور ہے تو اس وجہ سے جب ہاتھ پر سوجن آ جاتی ہے تو مجھے یہ پٹی باندھنی پڑتی ہے۔''
''آپ کو کس نے بتایا کہ آپ کے دل کا والو کمزور ہے۔ کسی ڈاکٹر کو اسپتال میں دکھایا کبھی آپ نے، کوئی ٹیسٹ وغیرہ کروایا؟''
مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔ ''جی جی سارے ٹیسٹ کروائے ہیں، شوگر کا بھی کروایا ہے، ایکو بھی کروایا ہے۔ لیکن ٹیسٹ کچھ گڑبڑ تھے پھر پتا چلا کہ دل کا ایک والو کمزور ہے سرجری کرنا پڑے گی۔''
''پھر آپ نے کیوں نہیں کروایا آپریشن؟'' دکھ اور صدمہ بھی امنڈ آ رہا تھا۔
''میں گیارہ سال سے اس کی مریضہ ہوں ابھی کی بات تھوڑی ہے۔ دراصل میرا بلڈ پریشر بہت بڑھ جاتا ہے، ایک بار تو بہت شوٹ کر گیا تھا، ڈاکٹر نے کہا کہ آپ تو خدا کے گھر سے لوٹ کر آئی ہیں، بس اسی لیے میرا آپریشن نہیں ہوتا کہ میرا بلڈ پریشر شوٹ کر جاتا ہے، بس زندگی کی گاڑی اسی طرح چل رہی ہے اسی دوران سارے ہی کام ہوتے رہے ہیں۔''
''کتنے بچے ہیں آپ کے؟''
''چار۔''
''آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں؟''
''ابھی بھی بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جا رہی ہوں، اس کے۔۔۔'' جواب مفصل، عام گھریلو خواتین کی مانند ایک اچھی ماں، اچھی بیوی، ذمے دار شہری اور مہنگائی کی چکی میں پستی ایک مظلوم عورت کی داستان جاری تھی۔ فرق اتنا تھا کہ وہ زندگی اور موت کی چوکھٹ پر پچھلے گیارہ برسوں سے کھڑی تھی اور اب تو اس کے لیے سب کچھ سہل ہو گیا تھا۔ نہ سرکاری اسپتال سے گلہ نہ روز مرہ کے ہنگاموں سے شکایت۔
''سنیے۔۔۔! میں چاہتی ہوں کہ کہیں جاب کر لوں، میں نے اپنے شوہر سے بڑی مشکل سے اجازت لی ہے، اگر آپ کے آفس میں یا کہیں اور میرے مطابق کوئی جاب ہو تو پلیز ضرور بتائیے گا۔ چار بچوں کا ساتھ ہے، میرے شوہر ایک دکان پر ملازم ہیں، کرائے کا گھر ہے، مہنگائی کا حال تو آپ نے دیکھا ہی ہے، اوپر سے گیس، بجلی کے خرچے الگ۔ اب انسان کیا کرے؟ تو میں اپنے گھر کے خرچے چلانے کے لیے جاب کرنا چاہتی ہوں۔'' آنکھوں میں امید کے دیے جگمگا رہے تھے۔
''اوپر والا ایسے ہی لوگوں کو ملا دیتا ہے، کیا پتا میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔'' حیرت۔۔۔حیرت اور بس ایک مسکراہٹ ابھری تھی۔
اگست کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، 2023، ترقی اور امیدوں کا ایک گزرتا ہوا سال اپنے ساتھ بے درد مہنگائی کا غبار لیے ہوئے ہیں۔ تکلیف دہ، اذیت بھرا ماحول جسے ہم جیسے انسان خار دار کانٹوں سے مزید بھرے جا رہے ہیں۔''کووڈ نے تو ہمیں جیسے مار کر رکھ دیا ہے۔'' صدائیں ابھرتی رہتی ہیں۔
اس عرصے میں پنجاب میں غربت میں کمی لانے کے لیے 295.71 ارب روپے، سندھ کی طرف سے 180 ارب روپے، خیبر پختونخوا کی طرف سے 77.291 ارب روپے اور بلوچستان کی طرف سے 53.708 ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اگرچہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے عوام کو سبسڈی کی فراہمی ایک اچھا عمل ہے کیونکہ اس سے عوام کو بہرحال کچھ نہ کچھ ریلیف ملتا ہے۔
اگر اس کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانا ہے یا عوام کے لیے ریلیف کا سامان کرنا ہے تو (آگے مزید تحریر ہے) جہاں تک تخفیف غربت کے اقدامات کا تعلق ہے تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں جس قدر غربت پائی جاتی ہے اس کو سامنے رکھا جائے تو یہ اقدامات بہت تھوڑے ہیں۔
تین اگست 2012 جب رمضان المبارک کی چودہ تاریخ تھی یہ ہمارے ہی اخبار کے اداریے کی چند سطریں ہیں لہٰذا ایسا کہنا سننا بھی عجیب سا لگتا ہے کہ پہلے خوش حالی ہی خوش حالی تھی اور اب۔
زمانے کیسے بھی ہوں، مصیبتیں، آفات کیسے بھی آئیں، ہمیں انسانی رویوں میں تبدیلی مار دیتی ہے۔ یہ کس قدر عجیب سی بات ہے کہ ایک ذمے دار شہری اس قدر بیمار ہو اور اسے سرکاری اسپتال عذر لگا کر فارغ کر دے۔ ہمارا مذہب تو اخلاق کی اعلیٰ بلندیوں پر ہے اس کی تعلیم ہی مخلوق سے اخلاق برتنا ہے پھر بعد کے معاملات دیکھے جاتے ہیں کہ ہمارے رب کا اخلاق بہت بلند ہے۔وہ جانتے تھے کہ میری بیٹی بچے گی نہیں، لیکن انھوں نے اس کے لیے کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔
وہ اسپتال نہیں جانا چاہتی تھی اور میں بھی اپنی بیٹی کے اس عمل پر مطمئن تھی کہ وہ جیسا پسند کرے اس نے اپنا فون بند کر رکھا تھا وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی تو میری دوسری بیٹی کے فون پر کال آئی کہ وہ میری بیٹی کے کمرے کو ہی اسپتال کے روم میں بدلنا چاہتے ہیں وہ میری بچی کی خواہش کے برخلاف اسے اسپتال شفٹ نہیں کرنا چاہتے۔
بیٹی نے مجھ سے کہا اور میں نے کہا اوکے۔ اور یقین کریں چوبیس گھنٹوں میں انھوں نے جھٹ پٹ میری بچی کے کمرے کو اسپتال کا کمرہ بنا دیا جس کے دو بیڈ انھوں نے ایک الیکٹریکل اور ایک گیس کا ریڈی کر دیا اس کے لیے انھوں نے ہم سے نہ پانچ روپے اور نہ پانچ سو ڈالر لیے، ایک ٹیڈی پیسہ ہم نے نہیں دیا۔ ہم کافروں میں رہتے ہیں لیکن انھوں نے جس ایمان داری سے اپنی ذمے داری نبھائی کہ ہمارے دل سے دعائیں نکلتی ہیں اگر ہم پاکستان میں ہوتے تو کیا میری بچی کی اس قدر دیکھ بھال اور علاج ہو سکتا تھا، ہم کتنے بھی پیسے خرچ کر لیتے لیکن اس طرح اس کا علاج اور کیئر نہیں ہو سکتی تھی۔''
رائمہ امریکا میں مقیم اپنی تعلیم کے آخری مراحل میں تھی اس نے شادی اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد اپنا تعلیمی کیریئر دوبارہ جوڑا تھا لیکن اس کی زندگی بس اتنی ہی تھی۔عین پاکستان میں ایک سفید پوش گھرانے کی خاتون جس کے چار بچے اس کے جلد تندرست ہونے کے منتظر ہیں۔ وہ کم تعلیم اور شدید بیماری کے باوجود اپنے گھر والوں کے لیے جینا چاہتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی کارکردگی اتنی بھی خراب نہیں ہے، پھر بھی عین جیسے نجانے کتنے مریضوں کو دلاسے، بہلا پھسلا کر گھر لوٹا دیا جاتا ہے، نہ دوا نہ دارو۔امید پہ دنیا قائم ہے، اس چودہ اگست کو بھی امیدوں، تمناؤں اور خوابوں کے نئے دیپ روشن ہوں گے۔
رائمہ کی زندگی کا دیپ امریکا میں بجھ چکا ہے، دعا ہے کہ عین کی زندگی کا دیپ ایک نئے جوش و ولولے سے جلتا اور روشنی بکھیرتا نظر آئے۔( آمین)