آئین و پاکستان لازم و ملزوم
ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ اب یہ ملک دیوالیہ ہونے کی مشکلات میں ہے اور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے
پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے 76 برس مکمل کرچکا ہے جب کہ چودہ اگست کو ہمارے آئین کو نافذ العمل ہونے کی گولڈن جوبلی بھی ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو ایک مکمل آئین جو 19 اپریل 1973 کو دیا گیا، اس کو عمل میں لایا گیا اور خود صدر کے عہدے کو چھوڑ کر ملک کے وزیر اعظم بنے۔
اب پاکستان اپنے دورکے اس سفر میں ہے جس کی تفسیر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر1 میں ہے۔ آرٹیکل نمبر 1 کو اگر باقی ماندہ آئین کے آرٹیکل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان بنانے والی پارٹیوں کی جنرل باڈی کے فیصلوں کو بھی کو مد نظر رکھا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کی سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرتے وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ایسے کئی اجلاسوں کا ذکرکیا ہے۔
اب اگر ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارا یہ سیاسی سفر ہمارے آئین کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قریبا چھبیس سال تو اسی تذبذب میں گزرگئے کہ اس ملک کو ایک مکمل آئین نہیں دینا ہے اور جب اس ملک کو آئین دیا گیا تو باقی پچاس سال اسی کشمکش میں گزرگئے کہ اس آئین کو کس طرح نافذ کیا جائے۔ ہمارے آئین کا وجود ہماری آزادی کا دوسرا رخ ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان ہے تو آئین بھی ہے اور اگر پاکستان نہیں تو آئین کا وجود بھی نہیں۔
آئین کا بننا بھی ایک سائنٹیفک سبجیکٹ ہے اور اس سبجیکٹ کے سائنسی بننے میں جو ہلچل مچی وہ دنیا کے پہلے تحریری آئین نے مچائی، جب چار مارچ 1789 کو امریکا کا تحریری آئین وجود میں آیا اور نافذ العمل ہوا۔ ایک ایسا مختصر آئین جو اس بدلتی دنیا میں 240 سال تک نہ صرف نافذ العمل رہا بلکہ آج بھی اس کا وجود تر و تازہ ہے۔ امریکا کے اس آئین نے بھی ماڈرن امریکا میں بڑے نشیب و فراز دیکھے اور ان نشیب و فراز سے گزر کر یہ دنیا کا ایک منفرد آئین ٹھہرا۔ ہاں! مگر اس آئین کا اسٹرکچر تبدیل نہ ہوا۔ یہ آئین اب بھی وہ ہی ہے، دنیا کا مختصر ترین آئین۔
ہندوستان کا آئین ایک جامع اور طویل آئین ہے۔ ایک بہترین آئین کے حساب سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آئین ایک مکمل وجود کا تصور رکھتا ہے، آئین کبھی ختم نہیں ہوتا اور یہ وجود میں آتا ہے جب کوئی ملک و قوم کسی خانہ جنگی کا شکار ہوتی ہے۔ اس کا بننا اور مرتب ہونا، اس ریاست کی تمام نسلوں، رنگ و زبانوں، ثقافت اور تاریخ کا مرکب ہوتا ہے جو دستاویزات کی شکل میں جمع ہوتا ہے اور پھر اس قوم کے تمام نمایندگان ان دستاویزات کو آئین کی شکل دیتے ہیں اور ساتھ چلنے کا عہد کرتے ہیں۔
پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل1 میں اس ریاست کو ری پبلک اور وفاقی ریاست کہتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اس کی تشریح کرتا ہے۔ آئین کی رو سے ہمارا قومی مذہب اسلام ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون کو اگر آرٹیکل بیس کی رو سے دیکھا جائے تو یہ آئین، پاکستان میں بسے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی دیتا ہے۔ اس آزادی کا ذکر قائد اعظم نے گیارہ اگست کو اپنی تقریر میں واضح انداز میں کیا، جو انھوں نے آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔
ہمارے سیاسی پس منظر پر سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا ہم ان پچاس سالوں میں اپنے آئین کے مطابق چل سکے ہیں؟ ہندوستان کا آئین ستر سال پہلے آیا مگر ایک دفعہ بھی ان کی کورٹس نے نظریہ ضرورت کا استعمال نہیں کیا، لیکن اس ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت ہماری اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ یہ ایک مفروضہ ہے کہ عدالتیں آئین کی پاسداری کی محافظ ہوتی ہیں لیکن اگر عوام ہی اس عمل پر کوئی ردِ عمل نہ دے تو کچھ نہیں ہو سکتا۔
اسرائیل میں ان کے وزیر اعظم نتن یاہو جو کہ ایک دو تہائی اکثریت بھی رکھتے ہیں، آئین میں ترمیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومتی فیصلوں کے خلاف کوئی بھی اسرائیل کی عدالت میں نہ جاسکے۔ اسرائیل کی عدالتوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور حکومت کے تابع کردیا جائے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف، اسرائیل میں ایک بھرپور رد عمل سامنے آیا، اسرائیل کی سول سوسائٹی، سابق سربراہانِ موساد، اسرائیل کی افواج، ایک ہزار سے زائد جنگی پائلٹ سب نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ کسی آمرکے حکم کے تابع نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کے حکم کے تحت کام کریں گے۔
نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا کے صدر بائیڈن نے بھی نتن یاہو کے اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔اسرائیل کے نتن یاہو، برازیل کے بولسنارو، ڈونالڈ ٹرمپ یا پھر ہمارے عمران خان یہ تمام لوگ right wing populism کی سیاست کرتے ہیں۔ نتن یاہو اسرائیل کی عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، اپنا ووٹ بینک بنانا چاہتے ہیں، وہ عدالتوں کے طاقتور ہونے سے ڈرتے ہیں۔
1820 میں امریکا میں ایسے قوانین بنائے کہ صدر،کانگریس اور سینیٹ ایک طرف اور عدالتیں دوسری طرف، ایسے قوانین بنائے گئے کہ جن سے عدالتوں کے اختیارات کم ہوں۔ اس وقت امریکا کے چیف جسٹس سر جان مارشل تھے۔ سر جان مارشل نے پہلی مرتبہ دنیا میں تحریری آئین کی تشریح کی۔
امریکا کے آئین کو، برطانیہ کے غیر تحریری آٓئین سے ایک مختلف شکل میں پیش کیا اور یہ بھی کہا کہ اس آئین کے خلاف جو بھی قانون آیا یا پھر یہ کہ اگر وہ قانون آئین کے تصادم میں ہے تو اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس طرح امریکا کے تینوں ستونوں یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ میں طاقت کا توازن پیدا ہوا۔ ہر ستون اپنی طاقت میں توازن رکھتا ہے اورکوئی دوسرا ستون پہلے ستون کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
پارلیمنٹ کا کام ہے قانون سازی کرنا، عدلیہ کا کام ہے قانون کی تشریح کرنا اور مقننہ کا کام ہے اپنے اختیارات کے تحت اس قانون کو نافذکرنا اور عمل کروانا۔اس طاقت کے توازن کی جنگ میں شاید عدالتوں کے ساتھ اتنا برا نہیں ہوا، جتنا کہ پارلیمنٹ اور مقننہ کے ساتھ ہوا۔
پاکستان میں طاقت کے تینوں ستونوں میں سب سے کمزور پارلیمنٹ ہے اور اب شدید ضرورت ہے کہ اس بات کو زیر بحث لایا جائے کہ کس طرح اورکیا اقدامات کیے جائیں کہ پارلیمنٹ کو طاقت کے توازن میں عدلیہ کے برابر لایا جائے۔ عدلیہ اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر قانون اور آئین کی تشریح کرے نہ کہ قانون وآئین کو تحریرکرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر قانون سازی کرے نہ کہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کرے۔
غیر جمہوری قوتوں نے جب یہ محسوس کیا بدلتی دنیا میں وہ براہِ راست ووٹ کے ذریعے کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرشبِ خون مارنا آسان رہا تو انھوں نے سسٹم میں انجینئرنگ کرنے کا سوچا اور یہ کام نظام انصاف کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھا۔ غیر جمہوری قوتوں کے اس اقدام معاشرے میں خطرناک حد تک بگاڑ پیدا ہوا بلکہ انصاف کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ غیرجمہوری قوتوں نے اپنے اشرافیہ کو مزید طاقتور بنایا ، ریاست کے وسائل کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ حب الوطنی کی من پسند تشریح بنائی گئی، پڑھے لکھے طبقے کو گمراہ کیا گیا اور انتہا پسندی کے بیانیے کو ہوا دی گئی۔
ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا کہ اب یہ ملک دیوالیہ ہونے کی مشکلات میں ہے اور اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ 2018 میں جو اسمبلیاں بنائی گئیں، ان کی مدت پوری ہوئی۔ نئے انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور نگراں حکومت کا سیٹ اپ بنایا جا رہا ہے۔2018 کے انتخابات میں جو انجینئرنگ کی گئی اب ایسا ہونا ممکن نہیں۔ عوام کے منتخب نمایندگان کے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ آنے والی چودہ اگست کو ہمیں عہد کرنا ہوگا ''آئین ہے تو پاکستان ہے اور آئین نہیں تو پاکستان نہیں۔''