دلاورانہ فیصلہ
اس سے پہلے ہماری عدالتیں عظیم سیاستدان حسین شہیدسہروردی کو سزادی چکی ہیں، زیڈ اے بھٹو کوعدالتوں نے پھانسی پر چڑھادیا
ہمارے لیے اگست کا مہینہ کئی تاریخی یادوں اور واقعات کو لیے طلوع ہوتا ہے ۔ اِسی مہینے کی 14تاریخ کو پاکستان معرضِ عمل میں آیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے بے پناہ جدوجہد اور شب و روز کی انتھک کوششوں سے یہ ملک ہمیں تحفتاً عنائت فرمایا ۔ اِس ملک کے منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں نے مگر اِس کی اور اِس کے غریب عوام کی کیا درگت بنا دی ہے، یہ المناک داستان اور تصویر سب کے سامنے ہے ۔
اِسی مہینے کی 17تاریخ کو پاکستان کا ایک ایسا حکمران المناک اسلوب میں دُنیا سے رخصت ہُوا جس نے آئین کی کتاب چاک کرکے مسلسل 11سال قائد اعظم کے پاکستان پر حکومت کی۔ عوام کے ہر قسم کے حقوق پاؤں تلے روندے رکھے۔
حیرت ہے کہ جب وہ استحصالی حکمران غیر فطری طور پر رخصت ہُوا تو بہت سے پاکستانی سر پر بازُو رکھ کر زار زار روئے ۔ آمروں کے شکنجے سے نجات حاصل کرنے کے لیے جمہوری جدوجہد بھی کرنا اور پھر اُن کی رخصتی پر اشک بھی بہانا۔ سمجھ نہیں آتا ہم چاہتے کیا ہیں؟
اور اب اِسی اگست کے مہینے کی 5تاریخ کو سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کے خلاف، توشہ خانہ کیس میں، اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے ۔ پچھلے ایک سال سے اِس کیس کی سماعت ہو رہی تھی ۔
چیئرمین پی ٹی آئی کو گزشتہ ایک برس سے پاکستان کی چھوٹی بڑی مختلف عدالتوں کی طرف سے جو سہولتیں اور ضمانتیں مل رہی تھیں، اِس پس منظر میں اُمید نہیں تھی کہ توشہ خانہ کیس کا کوئی فیصلہ جلد بھی ہوگا اور موصوف چیئرمین کو سزا بھی ہو جائے گی ۔چیئرمین پی ٹی آئی کے مہنگے، جملہ وکلا کو ویسے شاباش ملنی چاہیے کہ وہ پچھلے15مہینوں سے اپنے کلائنٹ کو کسی بھی جیل میں بھیجنے سے بچاتے رہے ہیں۔
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ، جناب ہمایوں دلاور صاحب، نے یہ فیصلہ کیا ہے تو سب حیران رہ گئے ہیں ۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا واریئرز اور جیالے وکلا جس طرح ہمایوں دلاور صاحب کے بارے میں بے بنیاد مگر پُر خطر پروپیگنڈہ کر رہے تھے، اس پیش منظر میں اُمید نہیں تھی کہ یہ فیصلہ انھی کی عدالت سے ہو جائے گا۔ مگر ہمایوں دلاور صاحب نے جس جرأت و استقامت سے فیصلہ صادر کیا ہے، اِسے واقعی دلاورانہ فیصلہ کہنا چاہیے ۔
پی ٹی آئی کے ہر قسم کے اور ہر سطح کے وابستگان کے دباؤ اور دھمکیاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔
اِس ''دلاورانہ '' فیصلے کے تحت چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ کیا گیا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں 6ماہ قید مزید کاٹنا پڑے گی۔
چیئرمین پی ٹی آئی اب ملزم سے سزایافتہ مجرم بن چکے ہیں۔اِس بنیاد پر شاید وہ پانچ سال کے لیے نااہل بھی ہو جائیں۔
سزا سنائے جانے کے بعد کسی بھی ٹی وی پر سزا یافتہ مجرم کا چہرہ نہیں دکھایا گیا ہے،اس لیے ہم اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ سزا سُننے اور بعد از گرفتاری چیئرمین پی ٹی آئی کی باڈی لینگوئج کیسی تھی؟ پنجرے میں پہنچ کر وہ یقیناً بُری طرح پھڑپھڑائے ہوں گے کہ انھوں نے تو ایک آزاد اور لاپروا پنچھی کی مانند ساری زندگی گزاری ہے۔
نہ معلوم لوگوں سے آزادی لینے کی بات کرنے والے سزا یافتہ مجرم کے پاس مگر اب بھی آزادی حاصل کرنے کے دو بڑے فورمز موجود ہیں۔
کئی ماہرینِ قانون کی رائے یہ ہے کہ فیصلے میں اتنے جھول اور اسقام ہیںکہ مجرم کی عدالتی دستگیری ہو سکتی ہے۔اورامکانات یہ بھی ہیں کہ مجرم کی پارٹی جب اعلیٰ عدالت میں اپیل کرے گی تو اُن کی دستگیری بھی ہو جائے گی۔ یہ مرحلہ مگر اتنا جلد اور آسانی سے آنے والا نہیں لگتا۔بیچارے نواز شریف کو مجرم بنایا گیا تو اُن کے پاس اپیل کے لیے تو کوئی فورم ہی نہیں بچا تھا۔
اطلاعات آئی ہیں کہ کئی جگہوں پر چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا پر نون لیگیوں نے جشن منائے، خوشی سے رقص کیے اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ اِس عمل کی شاید تحسین نہیں کی جا سکتی۔ انتقام اور بدلے کا جذبہ مگر اسقدر اندھا اور منہ زور ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات سے بعض لوگوں کو باز نہیں رکھا جا سکتا۔ نواز شریف کی سزا پر پی ٹی آئی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی اطمینان اور خوشیوں کا اظہار کیا تھا۔
افسوس !کسی دشمن اور مخالف کو قید بول جائے تو کیا خوشیاں منانا اور مٹھائیاں بانٹنا اچھا فعل ہے؟ دُنیا کا کوئی بھی معاشرہ اور سماج ایسی اخلاقیات کی اجازت نہیں دیتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا ، قید اور جرمانہ غیر معمولی ہے ۔
کہا جا سکتا ہے کہ مجرم اِس سزا سے بچ سکتا تھا اگر وہ ابتدائی ایام ہی میں سچ کا دامن پکڑتا ۔جائے عبرت ہے کہ کپتان کی سزا پر اُن کے تینوں سابق وزرائے اعلیٰ مہر بہ لب ہیں۔ اُن کے ایک سابق معتمد ساتھی اور سابق وزیر اعلیٰ نے یوں بھی کہا ہے: '' ضد اور انا چیئرمین پی ٹی آئی کو اِس مقام تک لے آئی۔''
سزا سنانے والے جج صاحب ، جناب ہمایوں دلاور ، نے مبینہ طور پر فیصلے میں لکھا ہے (1)چیئرمین پی ٹی آئی نے جھوٹی ڈیکلیریشن کے زریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا (2) ملزم نے فارم بی میں غلط معلومات دیں (3) وہ دھوکا دہی کے مرتکب ہُوئے ہیں (4) اُن کی بددیانتی بھی ثابت ہو گئی ہے ۔
سابق وزیر اعظم کے بارے میں عدالت کی جانب سے کہے گئے یہ الفاظ پوری پاکستانی قوم کے لیے شرم کا مقام بھی ہے اور ڈُوب مرنے کا بھی۔کیا ایسا شخص پونے چار سال ہمارا وزیر اعظم رہا ہے ؟کیا یہ شخص بظاہر ریاستِ مدینہ اور تصوف کی باتیں کرتا تھااور باطنی طور پر اُس کے چال چلن یہ تھے ؟پاکستان کے24کروڑ عوام اپنے کس سیاستدان اور حکمران پر اعتبار کریں؟ پاکستان کے کروڑوں عوام نے کتنے شوق اور محبت سے اپنے ایک کرکٹر ہیرو اور فلنتھرو پسٹ کو ووٹوں کی محبت سے اپنا حکمران چُنا تھا ۔
وہ مگر اقتدار و اختیار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر خائن ثابت ہُوا ؟ یہ تو پورے ملک اور ووٹروں کی توہین ہے۔ عوام مگر اپنے دل کا ٹوٹا ہُوا آئینہ کسے دکھائیں؟
اِس ''دلاورانہ'' فیصلے کے سامنے آنے پر رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ آخر ہمارے منتخب اور سویلین حکمرانوں ہی کو سنگین سزائیں کیوں ملتی ہیں؟ اِس سے پہلے ہماری عدالتیں عظیم سیاستدان حسین شہید سہروردی کو سزا دی چکی ہیں، زیڈ اے بھٹو کو عدالتوں نے پھانسی پر چڑھا دیا، سید یوسف رضا گیلانی کو کھڑے کھلوتے سزا دے کر وزارتِ عظمیٰ سے نکال دیا، انھوں نے جیل بھی بھگتی ، آصف علی زرداری کو11سال جیل یاترا پر بھیج دیا مگر جرم پھر بھی ثابت نہ ہُوا ، بے نظیر بھٹو کے خلاف کئی عدالتی فیصلے سامنے لائے گئے اور اُن کی حکومتیں گرا دی گئیں، نواز شریف کو سزا دے کر تاحیات نااہل قرار دے ڈالا گیا ۔
اس کے برعکس آئین کی توہین کرنے اور اِسے چند صفحوں کی بے وقعت کتاب قرار دے کر مسترد کرنے والے طاقتوروں کو ہماری سبھی عدالتوں نے تاریخی معافیاں دیں۔ اِن آمروں اور راتوں کے اندھیروں میں منتخب حکومتوں پر شبخون مارنے والوں کا عدالتیں بال بھی بیکا نہ کر سکیں۔مقامِ عبرت ہے کہ کپتان کو بھی قلعہ اٹک کی اُسی قدیم اور مہیب جیل میں قید کیا گیا ہے جہاں کبھی جنرل مشرف کے دَور میں سابق وزیر اعظم نواز شریف قید کیے گئے ۔