محبتوں کے سفیر
شاہ محمد کے سفر کے تجربے اور جنگلوں میں درپیش واقعات اس کے لیے تصوراتی محرک تھے۔
تاریخ میں چند لوگوں کے نام سنہرے حروف میں جگمگاتے ہیں مگر ان ناموں کے پیچھے لاکھوں، کروڑوں لوگ ایسے ہیں، جو خاموش سپاہی کی طرح مقصد کی سچائی کے محاذ پر عمر بھر لڑتے ہیں۔ جو تاریخ کا انمٹ حصہ ہیں، مگر خود گمنام رہتے ہیں۔ آج میں آپ کو ایک ایسے گمنام فوجی سے ملوا رہی ہوں جس نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھا۔ اس شخص کا نام محبت کے باب میں رہتی دنیا تک روشن رہے گا۔ محبت کرنا، محبت بانٹنا اور ثابت قدمی سے نفرتوں کو محبت میں تبدیل کرنا ایک بہت بڑا فن ہے۔ جو ہر کسی کو نہیں آتا۔ اس فوجی کا نام شاہ محمد تھا۔ جس کا تعلق ہندوستان کی ریاست پٹیالہ کے شہر سرہند بسی سے تھا۔
1947ء میں جب پاکستان بنا تھا تو شاہ محمد ہندوستان سے باہر یورپ کے کسی محاذ پر جنگ میں مصروف تھے۔ ان کا خاندان پاکستان آتے ہوئے مارا گیا۔ جیسے ہی شاہ محمد کو اپنے پورے خاندان، بیوی اور بچوں کی شہادت کی اطلاع ملی تو وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے۔ پاکستان پہنچے تو کچھ عرصہ لاہور کے مینٹل ہاسپٹل میں زیر علاج رہے۔ ٹھیک ہونے کے بعد اپنے دوست حنیف کو لے کر سائیکل پر مڈل ایسٹ کے سفر پر نکلے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کا سفر سائیکل پر طے کیا۔ ہر ملک نے ان انوکھے مسافروں کی خوب پذیرائی کی۔ وہ جس ملک پہنچتے تو سرکاری طور پر ان کا استقبال کیا جاتا۔ اور اخبارات ان کے متعلق خبریں شایع کرتے۔ ان کے پاس تصویروں کا البم ہوا کرتا تھا۔ جس میں وہ اپنے دوست حنیف کے ساتھ سفیروں و اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ ہار پہنے کھڑے دکھائی دیتے۔
اس البم میں اخبارات کے تراشے بھی محفوظ تھے۔ واپس آئے تو پرانے زخم پھر تازہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ بیمار رہے۔ علاج کی خاطر کافی عرصہ ڈاکٹر بشیر احمد کے پاس زیر علاج رہے۔ یہ ملاقات دیرینہ دوستی میں بدل گئی۔ اور وہ ڈاکٹر بشیر کے گھر میں فرد کے طور پر شامل ہو گئے۔ جب ڈاکٹر بشیر کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی تو انھوں نے اس کا نام تجمل حسین رکھا۔ لیکن وہ اسے پیار سے پپلی پکارتے۔ پپلی کے والد بلوچ تھے۔ ان کے گھر میں سرائیکی اور سندھی زبان بولی جاتی۔ چونکہ پپلی زیادہ تر شاہ محمد کے پاس رہتی۔ لہٰذا اس نے پہلا لفظ اردو میں کہا اور اردو بولنے لگی لوگ حیرت سے کہتے کہ پپلی سرائیکی اور سندھی کے بجائے اردو میں بات کرتی ہے۔
شاہ محمد فطرت کے قریب تھے۔ دریا، درخت، سبزہ اور پرندے ان کی زندگی کا جزو خاص تھے۔ فطرتاً تنہائی پسند تھے۔ ان کی شخصیت بھی خوبصورت تھی۔ چہرے پر صوفیوں والا سکون اور ہشاش بشاش انسان تھے۔ اپنی دھن میں رہنے والے۔ مثبت انداز فکر کے حامل، دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے والے۔ وہ پپلی کا ہاتھ پکڑ کر کبھی کھیتوں میں لے جاتے تو کبھی دریاؤں کے کنارے اس کے ساتھ دور تک چلتے جاتے۔ کبھی گھنے جنگلوں میں اسے لیے پھرتے۔ وہ بے خوف انسان تھے۔ ڈر و اندیشوں سے مبرا۔
شاہ محمد کے ساتھ رہتے ہوئے پپلی نے فطرت کا مشاہدہ قریب سے کیا۔ بہتے دریاؤں کی روانی کا اثر، درختوں کی چھاؤں کا مہکتا راز، پھول، تتلی و پودوں کی قربت کا سحر اسے بچپن میں ہی معلوم ہو گیا تھا۔ شاہ محمد اسے اکثر مشرق وسطیٰ کے قصے سناتے۔ اور اس کے ذہن کا دریچہ تصوراتی دنیا کی طرف کھل جاتا۔ کبھی اس کی سوچ بغداد کی گلیوں میں بھٹکنے لگی۔ کبھی وہ جادوئی قالین پر سیر کرنے لگتی۔ وہ ایران، شام، مصر، لیبیا کے رہن سہن و تہذیب سے آشنا تھی۔
شاہ محمد کے سفر کے تجربے اور جنگلوں میں درپیش واقعات اس کے لیے تصوراتی محرک تھے۔ اس نے بچپن میں ہی جنگ کی ہولناکی کو محسوس کر لیا تھا۔ یکم ستمبر جمعے کے دن صبح چار بج کر پینتالیس منٹ پر دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تھا۔ اور دنیا پر ایک بار پھر جنگ کے مہیب سائے منڈلانے لگے۔ ایک طرف نازی فوجوں نے نصف پولینڈ پر قبضہ کر لیا، تو دوسری طرف اسٹالن کے حکم پر ایسٹوینا، لیٹویا، لتھوانیا اور فن لینڈ میں جا گھسیں۔ نازیوں نے ڈنمارک اور ناروے کو بھلا ڈالا۔ 10 مئی 1940ء کو جرمنی نے بیلجیم، ہالینڈ اور لکسم برگ کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
جرمن فضائیہ نے برطانیہ کے شہروں اور ہوائی اڈوں پر حملے جاری رکھے۔ اور لندن معروف شہر سے کھنڈرات کا سماں پیش کرنے لگا۔ جنگ کی یہ آگ چیکوسلواکیہ، البانیہ، اٹلی، روم، روس، چین، جاپان سمیت کئی ملکوں میں بھڑکتی رہی۔ روس، برطانیہ اور چین ایٹمی اسلحہ بنانے لگے۔ اور ان ایٹمی طاقتوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اجارہ داری قائم رکھی۔ اور اسلحے کے فروغ کے لیے یہ تمام ایٹمی اسلحہ بنانے والے ملک چھوٹے ملکوں کی سیاسی رسہ کشی اور خانہ جنگی سے امیر ترین ہوتے رہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو آمریت نے ان کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ بڑی طاقتیں اس رجحان کے پس پردہ کام کرتی رہیں۔ جو ملک سمجھدار تھے، انھوں نے اپنا پارلیمانی نظام مضبوط کیا اور اس اجارہ داری کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ جو ملک سماجی شعور سے بے بہرہ تھے وہ معاشرتی انتشار کا شکار ہو گئے۔
شاہ محمد کی باتیں سن کر پپلی کو اندازہ ہوا کہ جان بوجھ کر انسان کی سوجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت کا راستہ روک دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہ محمد اسے کہتے ''جنگ کے خلاف لکھو، نفرت و تعصب کے خلاف آواز اٹھاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ جنگ ایک عفریت ہے، جو کئی نسلوں کی خوشیاں و خواب نگل جاتا ہے۔ تعصب اور نسل پرستی غیر منطقی رویے ہیں۔'' یہ کہتے شاہ محمد کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ پاکستان میں ہونے والے نسلی و مذہبی فسادات نے انھیں بہت دکھی کر دیا۔ پپلی ان کا دکھ سمجھتی تھی۔ خوبصورت رشتوں کو پا کر ہمیشہ کے لیے کھو دینا بہت اذیت ناک ہے۔ وہ یہ دکھ تمام عمر محسوس کرتی رہی۔
شاہ محمد اپنی زندگی کے آخری دنوں میں انڈیا گئے تھے اپنے آبائی وطن۔ اپنے کھوئے ہوئے رشتوں کو تلاش کرنے۔ مگر ناکام لوٹے۔ اتنی حسرت و تکلیف تھی ان کے چہرے پر کہ پپلی سے وہ دکھ دیکھا نہ جاتا۔ بس اتنا کہہ پائے۔ ''وہ گھر خالی تھا، جہاں کبھی میرے اپنے رہتے تھے''۔ اس کے بعد بیمار پڑ گئے۔ امید کا سہارا چھوٹ جائے تو سانسوں کی ڈور بھی بے معنی لگتی ہے۔ اور ایک دن شاہ محمد تمام تر دکھ سمیٹے دنیا سے چلے گئے۔ اس دن نہ تو ان کے لیے کوئی فوجی اعزاز تھا اور نہ ہی توپوں کی سلامی تھی۔ لیکن محبت کے اس سفیر کے لیے ستاروں نے خراج تحسین پیش کیا۔ بادلوں نے سلامی دی، جاتی ہوئی بہار نے ترانے گائے۔ رات کے آنسوؤں نے عقیدت کا اظہار کیا۔ پھر بہت سال گزر گئے۔ وہ جس مشرق وسطیٰ کے قصے سنتی تھی وہ گلدستہ وقت کے ساتھ بکھرنے لگا۔
ملک کی فضائیں بم کے دھماکوں سے دھواں ہوتی رہیں۔ متحد قوم، تفریق کے خانوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دن پپلی کا دل بہت گھبرایا تو وہ شاہ محمد کی آخری آرام گاہ ان سے ملنے جا پہنچی۔ جو ٹنڈو الٰہ یار میں واقع ہے۔ وہ کئی سالوں بعد وہاں گئی تھی۔ قبرستان میں بھٹکتی رہی مگر شاہ محمد کی قبر نہ ملی۔تمام قبریں بے نشان تھیں۔ پھر ایک قبر کی مٹی نے اس کے قدم روک لیے تھے۔ سدا بہار کا پودہ وہاں لہلہا رہا تھا۔ پودے سے وہ قبر پہچان پائی۔ آنسوؤں کا خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وہ شاہ محمد سے باتیں کرنے لگی۔ ''آپ کا مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔ بغداد کی گلیاں بھی سنا ہے بدل گئی ہیں۔ ویسی نہیں رہیں جیسا کبھی آپ بتایا کرتے تھے۔ شام کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ کئی نسلوں کے خواب جنگ کے ملبے میں دب چکے ہیں۔ ''
اس ملک کی فضائیں بھی اکثر بارود کے دھوئیں سے بھری رہتی ہیں۔ ایک نسل اپنی پرانی گمشدہ نسل کے دکھوں اور محرومیوں سے کچھ نہیں سیکھ پاتی۔ محبت کرنے والے لوگ کم رہ گئے ہیں۔ الفاظ کا بے جا اور غلط استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا میں سب سے مشکل کام ہے لفظوں کی حرمت کی پاسداری کرنا۔