افسر شاہی کی مراعات اور معیشت
حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کاوشوں میں مہنگائی کا عذاب مسلط کر دیا
قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگراں حکومت، ملک کی باگ ڈور سنبھالنے جا رہی ہے، جس کا بنیادی کام تو ملک میں شفاف انتخابات کروانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ درست معاشی سمت کا تعین کرنا بھی ناگزیر ہے۔
آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف کے 9 ماہ میں 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائے بندوبست کی تکمیل اور دوست ممالک کی جانب سے معاشی بحالی کے منصوبوں میں پارٹنر شپ کو آگے بڑھانے کی ضرورت اور ذمے داری نگراں حکومت کے کندھوں پر آن پڑے گی، توقع ہے کہ وہ اپنی یہ ذمے داری بحسن و خوبی سرانجام دے گی۔
تیرہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کاوشوں میں مہنگائی کا عذاب مسلط کردیا۔ حکمران اتحاد نے اس پر بھی بس نہیں کیا تھا، اراکین اسمبلی، سرکای افسران اور طبقہ اشرافیہ کو مراعات دینے میں بھی مثالیں قائم کر دکھائیں۔
کاش، ہمارے حکمران عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے ملک میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔
اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فی صد جاگیردار64 فی صد زرعی زمین پر قابض ہیں۔
آخری دنوں میں حکمران اتحاد نے جس انداز میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی ہے۔ تھوک کے حساب سے بغیر کسی طریق کار کی پابندی کے بل منظور کرائے ہیں۔ اس سے بھی انتہائی منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ درجنوں یونیورسٹیوں کے چارٹرز کی منظوری کے حوالے سے داستانیں بھی سننے میں آ رہی ہیں۔
افراط زر کی وجہ سے گونا گوں معاشی مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں لیکن ملکی حالات سے قطع نظر حکمرانوں کو عالمی اداروں کی خوشنودی عزیز ہے، سو ایک بار پھر آسان فیصلہ ہوا اور مظلوم عوام کی کمر پر مزید بوجھ لاد دیا گیا اور پٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔
ادھر ہمارے سیاستدان روتے ہیں کہ ملکی خزانہ خالی ہے، آئی ایم ایف نہیں مان رہا اور دوسری طرف ایسی مراعات کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہم آئی ایم ایف سے قرض نہ لیں تو ہمارے لیے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہوجاتا ہے، ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی خزانے کو کتنی بے رحمی کے ساتھ ضایع بھی کیا جا رہا ہے۔
عوام کو صبر اور کفایت شعاری کی تلقین کی جاتی ہے اور خود ان کی مراعات اور عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں بلکہ روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہیں۔ افسروں کو اتنی زیادہ مراعات دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ ان کو ایک تو تنخواہیں بھی لاکھوں میں دی جاتی ہیں، اس کے باوجود انھیں مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گاڑیاں اور ملازمین دیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف ایک عام آدمی جو 20، 25 یا 30 ہزار روپیہ تنخواہ لے رہا ہے، وہ اپنی جیب سے بجلی کے بل بھی ادا کرتا ہے، پٹرول بھی خریدتا ہے، گاڑیوں کے کرائے بھی ادا کرتا ہے، سب کچھ اپنی جیب سے کرتا ہے تو لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے اپنی جیب سے کیوں نہیں کرسکتے؟ انھیں تو گاڑی تک نہیں ملنی چاہئیں۔ جتنی ان کی تنخواہیں ہیں یہ تو اپنی تنخواہ سے بھی گاڑی خرید سکتے ہیں۔
بڑی گاڑیاں نہ خریدیں جتنی ان کی تنخواہیں ہیں، ان کے مطابق اپنے لیے گاڑیاں لے لیں، جب عوام کے لیے کام کر رہے ہیں تو پھر عوام کا خیال بھی کریں۔
ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دار، آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسائش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے شب و روز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے، جو بظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔
مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔ یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔
غریب عوام پس رہے ہیں، مر رہے ہیں، بھوکے ہیں، انھیں ریلیف دینے کے بجائے ہمارے حکمران ان پر مزید ٹیکس عائد کر رہے ہیں اور ساتھ افسروں کو بھی عیاشیاں کروا رہے ہیں۔
عوام ٹیکس دے رہے ہیں اور افسر اور وزرا عیاشیاں کر رہے ہیں، جو کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی قابل برداشت نہیں سمجھا جاتا، چہ جائیکہ ایک غریب ملک میں، جس کی معیشت ہی قرضوں پر چل رہی ہو اس میں ایسا رویہ رکھا جارہا ہو۔ ایک حیران کن خبر سننے کو ملی، وہ یہ کہ پنجاب میں حکومت نے اعلیٰ افسران کے لیے 200 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی۔
پنجاب حکومت نے ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کے لیے ڈبل کیبن گاڑی کی منظوری دی ہے اور ہر ضلع کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 1300 سی سی گاڑیوں کی منظوری دی ہے۔ اسی طرح تمام اضلاع کے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 1600 سی سی کار کی منظوری دی ہے اور ان تمام گاڑیوں کے لیے 2 ارب 33 کروڑ روپے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔
کس قدر بے حسی ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی پہلے ہی کیا کم تھی کہ افسران کو مزید مراعات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پہلے ان افسران کے پاس کیا گاڑیاں نہیں ہوں گی، کیا یہ پیدل دفاتر کو آتے جاتے ہیں؟ پہلے بھی یقیناً ان کے پاس گاڑیاں ہوں گی لیکن وہ گاڑیاں تھوڑی پرانی ہوگئی ہوں گی یا ان گاڑیوں میں ان کی شان میں کمی آتی ہو گی تو ان کے لیے نئی گاڑیاں لینے کی منظوری دے دی گئی۔
پاکستان میں افسر شاہی تو ابتدا سے ہی ہے اور ملک کو حقیقت میں افسر ہی چلاتے ہیں، جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے۔ یہی بیوروکریسی ملک کو چلاتی ہے، سیاستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں، پانچ سال کے لیے آئے، اپنا وقت پورا کیا اور چلے گئے، لیکن افسر تو 60 سال کی عمر تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے ان کی ترقیاں ہوتی جاتی ہے اور اتنے ہی زیادہ ان کے قدم جمتے رہتے ہیں۔
اس لیے ملک تو حقیقت میں وہی چلاتے ہیں۔ سیاست دانوں کو کیا معلوم ہے؟ افسران جو کہتے ہیں وہ اسی طرح کردیتے ہیں لیکن سیاستدان افسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس کے لیے انھیں نوازتے بھی رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں سرکاری افسروں کو بہت زیادہ مراعات دی جاتی ہیں، انھیں مفت بجلی، مفت گاڑیاں اور مفت پٹرول دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی افسروں کو ملازمین دیے جاتے ہیں، کئی افسروں کو سیکیورٹی گارڈز اور بنگلے بھی ملتے ہیں، پھر ان بنگلوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ اور ان کے باغیچوں میں کام کرنے کے لیے مالی اور کچن میں کام کرنے کے لیے خانساماں اور کئی طرح کے ملازمین دیے جاتے ہیں، جو صرف اور صرف ملکی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ہماری حکومتیں افسروں کو یہ مراعات دیتی ہیں اور انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں، کیونکہ یہ پیسہ ہمارے حکمرانوں کی جیبوں سے نہیں آتا، یہ عوام کا پیسہ ہے، اس لیے مفت کا مال سمجھ کر خوب لوٹا جا رہا ہے۔
عوام کو مہنگائی، بدامنی اور لوڈ شیڈنگ کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا، اربوں ڈالر غیر ملکی قرضے لینے کے باوجود عوام کو اندھیرے میں رکھنا، غریب عوام سے بجلی کے ڈبل، ٹرپل بل وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آج ہر شخص بیروزگاری، غربت، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور بد امنی کی وجہ سے شدید پریشان ہے۔
اس وقت وطن عزیز بہت ہی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کشکول توڑ دیں تو طبقہ اشرافیہ گزارا کیسے کرے گا؟ اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اشرافیہ کے تسلسل کو توڑنا ممکن ہے۔
اس وقت معیشت اور معاشرت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے تمام معاشی اکائیوں کا سرگرم ہونا ضروری ہے۔ بد انتظامی، بد عنوانی اور کرپشن ملکی مسائل کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کو ہمہ نوعیت کے بحرانوں سے نکالنے کے لیے عوامی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
اس اہمیت کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو ملکی منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں ایک موثر کردار ادا کرنے دیا جائے، تاکہ انتخابات کے بعد ایک نئی منتخب حکومت ملکی اور حکومتی معاملات بخوبی چلا سکے۔