پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ
پارلیمنٹ کے جملہ ارکان کے لیے مناسب ہے کہ وہ ایس ایم ظفر صاحب کی یہ شاندار کتاب (پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ) ضرور پڑھیں
ہمارے ہاں یہ تصور خاصا پختہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ درحقیقت ایک ایسا کلب ہے جہاں پاکستان کے انتہائی مراعات یافتہ افراد، گروہوں اور طبقات کے مفادات کے حصول اور تحفظ کی ہمیشہ بات کی جاتی ہے ۔ پارلیمنٹ پاکستانی اشرافیہ کا ایسا طاقتور کلب ہے جہاں نجی اور گروہی مفادات کی بات کرکے اِسے قانونی شکل دی جاتی ہے ۔
عمومی اور خصوصی سطح پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کے منتخب ارکان کی ایسی آماجگاہ ہے جہاں پاکستان کے غریبوں،بے دست و پا اور ذِلتوں کے ماروں کی آوازوں پر دانستہ کان نہیں دھرا جاتا ۔یہ تصورات اور خیالات ہوا میں معلق اور بے بنیاد نہیں ہیں ۔ ہم اِن خیالات و احساسات کا، عملی شکل میں، آئے روز مشاہدہ اور تجربہ کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر جناب شہباز شریف کی قیادت میں حالیہ اتحادی حکومت نے 16مہینوں کے اقتدار کے دوران پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ نے زیادہ تر اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے ۔ اِس بارے پارلیمنٹ کے کئی فیصلے اور قانون سازیاں یہاں دہرائی جا سکتی ہیں ۔
اِس ضمن میں 2مثالیں ہی کافی ہیں(۱) سینیٹ نے اپنے موجودہ اور سابقہ چیئرمین سینیٹ کی بے تحاشہ مراعات اور مفادات میں مزید اضافہ کیا (۲) ملکی خزانہ خالی ہونے اور عالمی ساہو کاروں سے قرضے مانگنے کے باوجود اتحادی حکومت کے زیر نگرانی یہ فیصلہ کہ جنرل الیکشنز سے قبل ارکانِ پارلیمنٹ کو ترقیاتی منصوبوں کے نام پر مبینہ طور پر اربوں روپے کے فنڈز فراہم کیے جائیں گے(۳)پاکستان کی چنیدہ اشرافیہ کو 3ارب ڈالرز کے بغیر سود قرضے جاری کرنا اور پھر ان کے نام بھی پارلیمنٹ میں بتانے سے انکار۔
پارلیمنٹ اور ارکانِ پارلیمنٹ کے اِنہی فیصلوں اور اقدامات کے کارن عوام کی نظروں میں پارلیمنٹ اپنا اعتماد اور اعتبار کھو دیتی ہے ۔
اِسی لیے ممتاز ترین امریکی دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر نوم چومسکی (Noam Chomsky)نے بھی کہا ہے :''اگر پارلیمان اِسی طرح اشرافیہ کی بہبود کی ضامن بنی رہی تو نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ جمہوریت سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ جائے گا اور پھر بحران یا انقلاب قوم کا مستقبل ہوگا۔''
پاکستان میں پارلیمنٹ کے پیش افتادہ حالات و واقعات کی موجودگی میں تو نوم چومسکی کا تجزیہ درست ہونے کے قریب ہے ۔
یہاں انقلاب تو خیر کبھی کوئی نہیں آئیگا لیکن سنگین اور گمبھیر بحرانوں کے مزید بڑھنے اور گہرے ہونے کے خدشات و خطرات ضرور پائے جاتے ہیں۔وطنِ عزیز کے معروف قانون دان اور بزرگ دانشور جناب ایس ایم ظفر نے اپنی نئی کتاب ''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ'' میں اِنہی خدشات کا ، تاریخِ پاکستان کی روشنی میں، جائزہ لیا ہے ۔
ماشاء اللہ92سال کی عمر میں بھی جناب ایس ایم ظفر بھرپور زندگی گزار رہے ہیں ۔ پاکستانی سیاست ، اقتدار اور قانون کے کئی مراحل اور مدارج کو، بنتے بگڑتے، اُنہوں نے اپنی نظروں کے سامنے دیکھا ہے۔ زیر نظر کتاب سمیت وہ اب تک 10وقیع کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔
ان جملہ تصنیفات میں ایس ایم ظفر صاحب نے پاکستان میں قانون کی بالا دستی اور حاکمیت کے خواب دیکھے ہیں ۔ یہ مگر الگ بات ہے کہ اِن خوابوں میں آدرشوں کے مطلوبہ رنگ نہیں بھرے جا سکے ۔ یہ ہماری اجتماعی اور قومی بد بختی ہے ۔ شاہ صاحب نے زیر نظر کتاب میں بھی اِسی بد قسمتی کا ذکر کیا ہے۔
ایس ایم ظفر صاحب مکالمے اور مصاحبے کے آدمی ہیں۔اور مکالمے اور مصاحبے کی بنیادی ضرورت اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ بات سہل اسلوب میں کی جائے تاکہ مجلس میں شریک ہر خاص و عام مکالمے سے مستفید و مستفیض ہو سکے ۔ ''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ'' نامی اِس کتاب میں یہ خاصیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ ایس ایم ظفر صاحب نے قانون اور پارلیمنٹ کی باتیں سمجھاتے ہُوئے، خواہ مخواہ، پیچیدہ اور اُلجھے اسلوب سے اعراض برتا ہے۔
یہ اندازِتحریر قابلِ تحسین ہے ۔مصنف نے بجا لکھا ہے کہ ''ارکانِ قومی اسمبلی اور سینیٹ قراردادوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں ''غدار'' ، ''چور'' ،'' ڈاکو'' اور ''منافق'' ایسے الفاظ کو غیر پارلیمانی قرار دے دیں۔'' مگر اِس تجویز کو مانتا کون ہے ؟ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار کے دوران اِن تہمتی الفاظ کو ''نئے عروج'' تک پہنچا دیا تھا۔
جناب ایس ایم ظفر نے زیر تبصرہ کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ '' مجھے آج بھی ، جب جمہوریت اور پارلیمان کی کارکردگی سے لوگ مایوس ہو رہے ہیں، اِس امر کا یقین ہے کہ جلد یا بدیر ارکانِ پارلیمنٹ گرہ کھولنے اور اِسے سلجھانے کی صلاحیت پالیں گے۔''
مصنف کی اُمید اور توقع تو مستحسن ہے مگر ہماری پارلیمنٹ کی مجموعی کارکردگی اور ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت کے کردار ایسے ہیں کہ اِن سے عوام کے مسائل و مصائب کی گرہ کشائی نہیں ہو سکے گی ۔''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ'' کے محترم مصنف نے کشادہ قلبی سے بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوریت کے حق میں آواز بلند رکھنے کی بات کی ہے ۔
اِس کتاب کا پیش لفظ لکھنے والے صاحب ( سابق چیئرمین سینیٹ جناب وسیم سجاد) نے بھی محمد علی جناح کے طرزِ جمہوریت کے تصورپر بات کی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ بانیِ پاکستان نے ملک و معاشرے میں رواداری کی بات بھی کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ یہ ملک مذہبی ریاست نہیں ہو گی ۔ مگر قائد اعظم کے پاکستان پر براجمان ہونے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے قائد اعظم کے اِن قابلِ تحسین ارشاداتِ عالیہ پر کتنا عمل کیا ، یہ المیہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
کیا جناب قائد اعظم کے ارشاداتِ عالیہ محض کتابوں کی زینت بڑھانے کے لیے رہ گئے ہیں؟ مملکتِ خداداد کی جمہوریت اور جمہوری حکومتوں پر غیر جمہوری قوتوں نے جس بیدردی اور شقاوت سے براہِ راست بار بار شبخون مارے اور کبھی پسِ پردہ رہ کر جمہوری و منتخب حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچیں،یہ قائد اعظم کے ارشادات کی براہِ راست توہین تھی۔ مگر کسے پرواہ ہے؟ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف نے بھی یہ لکھا ہے کہ منتخب و جمہوری حکومتوں میں غیر جمہوری قوتوں کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
ایس ایم ظفر صاحب نے اِس سلسلے میں قائد اعظم کے ایک ارشادِ گرامی کہ '' افواجِ پاکستان عوام کے خادم ہیں'' کے زیر عنوان ایک باب بھی باندھا ہے ، لیکن پچھلے75برسوں میں بابائے قوم کے اِس ارشاد کی جس طرح بے توقیری کی گئی ہے، یہ المناک تصویر ہم سب کے سامنے ہے۔
المیہ یہ ہے کہ خود اِس کتاب کے مصنف صاحب دو آمرانہ اور غیر جمہوری حکومتوں میں وفاقی وزیر اور رکنِ ایوانِ بالا رہے ۔تو پھر پارلیمنٹ کی بالا دستی کا خواب اور جمہوریت سے محبت کی یہ تبلیغ چہ معنی دارد؟
''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ'' نامی250صفحات پر مشتمل اِس کتاب کا 10صفحاتی ابتدائیہ سابق سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر نے لکھا ہے اور اُنہوں نے اِسے'' ایک فکر انگیز کتاب'' قرار دیا ہے ۔
فرحت اللہ بابر اور ایس ایم ظفر میں ایک قدرِ مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی آئین شکن اور غاصب جنرل پرویز مشرف کے دَورِ حکومت میں ایوانِ بالا کے رکن تھے ۔ فرحت اللہ بابر نے اپنے ابتدائیے میں اپنے دوست کے افکار و خیالات کی خوب لاج رکھی ہے۔
جناب شہباز شریف کے16ماہانہ دَور میں پارلیمنٹ میں روزانہ جس طرح سیکڑوں کے حساب سے قوانین بنائے گئے ، ایسی پارلیمنٹ کے جملہ ارکان کے لیے مناسب ہے کہ وہ ایس ایم ظفر صاحب کی یہ شاندار کتاب (پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ) ضرور پڑھیں ، مگر ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ کو کتابیں پڑھنے کی فرصت کہاں؟