پیچ و تاب زندگی کے
وزیر اعظم سے منسوب یہ بیانیہ عام کیا گیا کہ معرکہ کارگل ان کی اجازت کے بغیر شروع کیا گیا
زندگی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے پیچ و تاب انسان کو یکسانیت کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ ان پیچ و تاب کو اگر پلٹ کر سوچنے کا کبھی موقع ملے تو کھٹی میٹھی یادوں کا ذائقہ تا دیر قلب و ذہن کو تازہ کیے رکھتا ہے۔ اگر کردار وہ ہوں جن سے ہماری تاریخ مزین ہے تو گویا ' ہم بھی وہیں موجود تھے ' جیسالطف آتا ہے۔
بریگیڈئیر صولت رضا ہمارے ادب اور صحافت کا معتبر نام ہے۔ ان کی زندگی کے پیچ و تاب پر مبنی ان کی یادداشتیں ' پیچ و تاب زندگی' (پبلشر قلم فاؤنڈیشن لاہور) پڑھنے کا موقع ملا تو اس آپ بیتی میں جگ بیتی کے امتزاج نے سماں باندھ دیا۔ صولت رضا صحافت میں ماسٹرز کرنے یونیورسٹی گئے۔
1970 سے کچھ پہلے کا وقت نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے بہت ہنگامہ خیز تھا۔ کُل وقتی صحافت کے کوچے سے وہ فوج میں کمیشن لینے کے بعد ایک دلچسپ طریقے سے آئی ایس پی آر وارد ہوئے اور پھر اُسی کے ہو رہے۔ لفٹینی سے بریگیڈئیر بلکہ ریٹائرمنٹ تک وہ اور آئی ایس پی آر یک جان و دو قالب رہے۔ تین دِہائیوں پر پھیلے پیچ و تاب کے کچھ نمونے آپ کی نذر۔۔۔
میں1971کے آغاز میں پنجاب یونی ورسٹی سے فارغ ہو چکا تھا اور ایک اردو روزنامے سے 'برطرف'۔ ابھی مشرقی پاکستان الگ نہیں ہوا تھا اور اخبارات بھی ' متحدہ پاکستان' کی صحافت میں مصروف تھے۔ معاشی لحاظ سے بڑا کڑا وقت تھا۔پروانہ ء ملازمت پر تنخواہ چارسو پچیس روپے درج تھی لیکن کئی ماہ محض ایک ماہ یا پندرہ دن کی تنخواہ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔
اومان اور اردن سے واپسی کے فضائی سفر کے دوران صدر جنرل ضیاء الحق نے سرکاری اور میڈیا کے نمایندوں کے ساتھ الوداعی مصافحہ شروع کر دیا۔میری جانب ہاتھ بڑھایا، میں نشست سے کھڑا ہوگیا۔
کہنے لگے کیسا رہا سفر؟ میں نے حسب معمول دو چار فقروں میں تعریف کر دی۔ میری بات ختم ہوئی تو کہنے لگے کہ ہلال میں تاثرات ضرور لکھیئے گا۔ میں نے رائٹ سر کہا اور جانے کیوں کہہ دیا کہ سر میرے لائق کوئی اور خدمت؟ میری بات سن کر ایک لمحے کے لیے رکے اور اپنا مخصوص قہقہہ بلند کیا۔ میرے کاندھے کو تھپتھپایا اور تھینک یو تھینک یو کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
میرے سینئر بریگیڈئیر صدیق سالک بھی یہ مکالمہ سن رہے تھے۔ صدر کے جاتے ہی طلب کیا اور کہا؛ مسٹر! یہ کیا کہہ رہے تھے آپ؟ ایک کیپٹن، آرمی چیف اور صدر مملکت کو کہہ رہا ہے سر! میرے لائق کوئی خدمت! ہوش میں تو ہو؟ عسکری زندگی کے سفر میں ایسا ہوا کہ ہم نے کسی بلند بالا سینئر کو جنرل ضیاء الحق سمجھ کر لطیف پیرائے میں گفتگو کی تو منہ کی کھائی، جس کے بعد منہ کا زاویہ اور ذائقہ تبدیل کرنے میں کافی وقت صرف ہوا۔
جنرل آصف نوازکے دور میں کئی اہم واقعات پیش آئے جن میں کراچی آپریشن سرِِ فہرست تھا۔ ایک مخصوص' کیفیت' جسے مصروفیت کہنا درست نہیں ہوگا، اس کیفیت نے آرمی چیف کی توجہ کو متاثر کیا تھا۔ یہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا عمومی رویہ تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ آرمی چیف سے وہ جس' قرب' کے آرزومند ہیں وہ انھیں حاصل نہیں ہو رہا ہے۔
تاثر یہ ہے کہ آرمی چیف صدر پاکستان غلام اسحاق خان کے زیادہ قریب ہیں۔ اس تاثر کی اطلاع جنرل آصف نواز کو بھی تھی، لہٰذا انھوں نے یہ تاثر زائل کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ وزیر اعظم کو اپنے ہمراہ آرمی مشقوں، عسکری تقریبات اور دیگر بریفنگز پر لے کر جاتے تھے۔
وہ بار بار بریفنگز میں یہ بات دوہراتے کہ فوج کو ملکی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کے باوجود نواز شریف اور ان کے چند قریبی ساتھی کسی نہ کسی حوالے سے مکمل تعاون کی' عدم دستیابی ' کا تاثر قائم رکھنا چاہتے تھے۔
شاید انھیں ہر دس پندرہ دن بعد آرمی چیف سے یہ الفاظ سننا پسند تھے کہ فوج کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جنگ کارگل کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے چند ایک عسکری فیصلے ہیں اور کچھ سیاسی فیصلے اور سیاسی عوامل کی ترجیحات وغیرہ۔ جنگ کسی طور اپنے اختتام کو پہنچی تو تجزئیے شروع ہو گئے۔
وزیر اعظم سے منسوب یہ بیانیہ عام کیا گیا کہ معرکہ کارگل ان کی اجازت کے بغیر شروع کیا گیا۔اول تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر اس قسم کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
اس زمانے کی ہائی کمان میں یہ تاثر عام تھا کہ نواز شریف عسکری معاملات اور خاص طور پر بھارت سے نبرد آزمائی کی تاریخ سے مکمل آشنائی کا تاثر نہیں دیتے ہیں۔ انھیں سطحی اور سرسری گفتگو زیادہ مرغوب ہے۔
صولت رضا کا شگفتہ انداز تحریر ان کی اولین کتاب کاکولیات سے تسلیم شدہ ہے۔ ان کی دوسری کتاب غیر فوجی کالم بھی حالات حاضرہ پر شگفتہ تجزیوں پر مبنی ہے۔
آئی ایس پی آر میں ان کا طویل قیام بہت سے معرکہ آراء واقعات سے مزین رہا ، پیچ و تاب زندگی ان تمام واقعات کا احاطہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ بقول ان کے اپنے' اس کتاب کا ہر باب ایک الگ کتاب کا تقاضا کرتا ہے'۔ تاہم اختصار کے باوجود تاریخ اور سیاست کے طالب علموں کے لیے یہ کتاب دلچسپ اور کئی اعتبار سے چشم کشا ہے۔