غزل
کر توقف ذرا بناتا ہوں
بھیڑ میں راستہ بناتا ہوں
میں تجھے لا کے خواب زاروں میں
نیند کا ذائقہ بناتا ہوں
تو مری آنکھ میں رہائش رکھ
میں ترے دل میں جا بناتا ہوں
کون مجھ سے یہاں بڑا ہے میاں
ہاں، جسے میں بڑا بناتا ہوں
سر نہیں، جیتنے ہیں دل میں نے
حرفِ مہر و وفا بناتا ہوں
کھینچتا ہوں صدا سے خاموشی
خامشی سے صدا بناتا ہوں
روز کرتا ہوں اک نئی خواہش
روز اک بت نیا بناتا ہوں
میں بناؤں گا شعر میں ترے نقش
صبر کر واجبہ! بناتا ہوں
(عبدالرحمان واصف۔ کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
یہ ہونا تھا ہمارے نقشِ پا سے
تہی ہونے لگے رستے ہوا سے
سماعت بے خبر ہونے لگی ہے
تری آواز سے تیری صدا سے
مرے ہمراہ کب مہتاب آیا
شریکِ درد ہے جگنو سدا سے
مرے دامن میں گرتے جا رہے ہیں
ستارے ٹوٹ کر شب کی ردا سے
کوئی جیتا نہ اب مرتا ہے کوئی
دعا سے یا کسی کی بد دعا سے
میں وہ بیمار ہوں جس کو مرض کی
شفا ملتی ہے خاکِ کربلا سے
(وسیم عبّاس۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
تنگ رستہ نئی روانی کا
کچھ تو مقصد ہے کم بیانی کا
ایک طرفہ ہوئی محبت بھی
حشر اتنا برا جوانی کا
بڑے بدلے مزاج دیکھے ہیں
رنگ دیکھا نہیں ہے پانی کا
وسعتِ کارِ عشق ماپتی ہوں
ہنر آتا ہے زندگانی کا
لوگ ایسے قبول کرتے ہیں
جیسے مذہب ہو بد زبانی کا
(نیلوفر علی۔ پرتاب گڑھ ،بھارت)
۔۔۔
غزل
حیرتوں کے سلسلے بڑھنے لگے
ہم چلے تو راستے بڑھنے لگے
زندگی نے اس قدر دھوکے دیے
زندگی کے تجربے بڑھنے لگے
رفتہ رفتہ ہم ہوئے عاشق مزاج
رفتہ رفتہ تبصرے بڑھنے لگے
آپ نے کچھ اس طرح سے داد دی
شاعروں کے حوصلے بڑھنے لگے
عشق نے اپنا ہنر دکھلا دیا
حسن کے جب معجزے بڑھنے لگے
شاعری،موسم سہانا اور تم
خواہشوں کے قافلے بڑھنے لگے
نیند پوری ہوگئی اس شخص کی
اور اپنے رتجگے بڑھنے لگے
حل کیا جب ایک ہم نے مسئلہ
اور بھی کچھ مسئلے بڑھنے لگے
خود سے کٹ کر رہ گئے صادق امینؔ
جونہی ان سے رابطے بڑھنے لگے
(محمد امین صادق۔مانسہرہ)
۔۔۔
غزل
ایسی تکنیک سے تصویر بنائی جائے
دشت کے ہاتھ میں اِک جھیل تھمائی جائے
سیکڑوں جھرنے گریں آ کے کسی دریا میں
روشنی گھول کے موجوں کو پلائی جائے
صف بہ صف سلسلے محسوس ہوں کہساروں کے
اور مرکز میں کوئی وادی دکھائی جائے
پہلے وہ لمس کیا جائے بدن پر طاری
اور پھر سانس کی رفتار بڑھائی جائے
بعد میں جا کے کِیا جائے ہوا سے شکوہ
پہلے شاخوں پہ جمی برف ہٹائی جائے
ایک ہی وقت پہ دونوں کی نظر چاند پہ ہو
اور پھر سوچ کی پگڈنڈی ملائی جائے
روز دریا کا گزر ہوتا ہے اس بستی سے
ذرا! گہرائی سے بنیاد اٹھائی جائے
حبس موسم میں کُھلے کھیتوں کی جانب فیصلؔ
مرکزی ہال میں اِک کھڑکی لگائی جائے
(فیصل ندیم فیصل۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
کھل اٹھے سکھ کے پھول چاروں طرف
آئے جب جب رسول چاروں طرف
پھر محبت نے بانہیں پھیلائیں
پھر رہے تھے ملول چاروں طرف
ایک کُن کی صدا کی مار ہیں سب
ہو گا حق کا نزول چاروں طرف
ہم بگولوں کی نذر ہوگئے تھے
ہائے اڑتی تھی دھول چاروں طرف
میں نے پھولوں کے خواب دیکھے تھے
کیوں اُگ آئے ببول چاروں طرف
اس نظر کے جواب میں گونجی
اک صدائے قبول چاروں طرف
جانے والوں نے عہد توڑ دیے
بن گئے تھے اصول چاروں طرف
ادب آداب کھو گئے ہیں کہیں
بن رہے ہیں سکول چاروں طرف
(حنا عنبرین۔ لیہ)
۔۔۔
غزل
عہدِنو کچھ نہیں، ہے عہدِ زیاں
خواب دنیا کہاں ہے دل زدگاں؟
دیکھیے! میرا تو نہیں میں خود
سوچیے! آپ کا ہے کون یہاں
اپنی دنیا ہوس کا رزق ہوئی
ڈھلتے سائے ہیں طفل و پیر و جواں
دشتِ غم، تشنگی، کٹھن رستہ
چل سکو گے مزید ہم سفراں؟
دیکھنے والا جب نہ ہو راشد
اک برابر ہے پھر نہاں و عیاں
(راشد عباسی۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
سخن وروں کو تو اظہارِ ذات مسئلہ ہے
جو سچ کہوں تو یہی ایک بات مسئلہ ہے
ہزار ہا ہیں حسینائیں شاعری میں مگن
ہیں ان میں چند مگر شاعرات ،مسئلہ ہے
زیادہ تر وہی اشعار ہیں زباں زد عام
ہو جن میں بات کوئی واہیات،مسئلہ ہے
نئے خیال کو قاصر ہیں پیش کرنے سے
تخیلات کا یہ انحطاط،مسئلہ ہے
مشاعروں میں ہیں شاعر زیادہ سامعیں کم
سٹیج چھوٹا بڑی ہے برات، مسئلہ ہے
مشاعرہ جو ہوا ختم،مچ گئی ہلچل
ہے کشمکش وہ حصولِ پرات مسئلہ ہے
میں چپ ہوں اس لیے اکرام ادب کے دھندے میں
نہ میری روزی کو لگ جائے لات،مسئلہ ہے
( اکرام رشید قریشی۔ سعودی عرب)
۔۔۔
غزل
کفِ اِمکاں پہ خیالات کی لُو میںگھل کر
میں نیا رنگ بنا، رنگِ نمو میں گھل کر
یہ خلل کون و مکاں کو ہی بہا لے جاتا
میں بہک جاتا اگر سیلِ سبو میں گھل کر
میری تفہیم سے واضح ہوئے یہ ارض و سما
روشنی عکس ہوئی میرے لہو میں گھل کر
جیسے افلاک میں اجرام بناتے ہیں جگہ
تُو بھی چمکا مرے افکار کی لُو میں گھل کر
داد ہے اُس کے فنِ بخیہ گری کو توحیدؔ
رخم ٹیٹو سا ہوا تارِ رفو میں گھل کر
(توحید زیب۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
اس نے چن چن کے اندھیرے جو اتارے سارے
سو گئے تب سے مرے بخت کے تارے سارے
درد جتنے بھی مجھے یاد تھے پڑھ بیٹھا ہوں
نام جتنے بھی رہے یاد پکارے سارے
ضبط ٹوٹا جو کسی روز مرے اشکوں کا
ڈوب جائیں گے اسی روز کنارے سارے
سب نے دیکھا ہے ترے ہاتھ میں خنجر لیکن
میری ہی سمت کیے جائیں اشارے سارے
تب تلک سانس کے کچھ دام بھی بڑھ جائیں گے
بیچ کر آتا ہوں جب تک میں غبارے سارے
کس کو معلوم کہ نفرت میں گنوایا کیا ہے
کون گنتا ہے محبت میں خسارے سارے
وہ سمجھتا تھا میں دنیا سے گزر جاؤں گا
درد جب اس نے مرے دل سے گزارے سارے
وہی عمران ؔ کہانی میں امر ہوتے ہیں
ہائے وہ لوگ محبت نے جو مارے سارے
(علی عمران۔ عمران)
۔۔۔
غزل
یہی نہیں بیان تک نہیں رہا
مجھے تمہارا دھیان تک نہیں رہا
جہاں پر ایک شہرِ خوش نگار تھا
وہاں پر اک مکان تک نہیں رہا
کسی کی آنکھ میں بھی اس کا عکس ہے
ستارہ آسمان تک نہیں رہا
کمان میں جو تیر ہے خراب ہے
جو تیر تھا کمان تک نہیں رہا
سبھی کو اک نئے جہاں کی فکر ہے
کوئی بھی اس جہان تک نہیں رہا
میں وہ سوال ہوں کسی کے باب میں
جو یاد امتحان تک نہیں رہا
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)
۔۔۔
غزل
فون نمبر لکھ دیا کھڑکی سے پرچی پھینک دی
بد مقدر نے گلی میں گھر کی پگڑی پھینک دی
جسم سے لذت اٹھائی عشق کو رسوا کیا
کھا لیا پھل اور پھر کچرے میں گٹھلی پھینک دی
زندگی سے کاش غم بھی پھینک پاؤں اس طرح
چائے کے کپ سے پکڑ کر جیسے مکھی پھینک دی
مجھ سے بہتر شخص پر دل اس کا مائل ہو گیا
دیکھ کر بچے نے قلفی جھٹ سے ٹافی پھینک دی
وقت نے ہاتھ اس کا دستِ غیر میں پکڑا دیا
اور میرے دل کے خانے میں اداسی پھینک دی
وقعتِ تعلیم مجھ بد بخت و آوارہ سے پوچھ
جس نے کم عمری میں بستہ اور تختی پھینک دی
چھا گئی دعوائے عشقِ پاک پر حرص و ہوس
سر سے چادر جسم سے پوشاک اتاری، پھینک دی
(عبداللہ باصرؔ۔ گوجرانوالہ)
۔۔۔
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی