لاہورکے دیہی علاقوں میں لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور
ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے، پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز
واسا سمیت سرکاری و غیر سرکاری ذرائع سے صاف پانی کی فراہمی کے باوجود صوبائی دارالحکومت کے مضافاتی اور دیہی علاقوں میں لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔
پنجاب کےمختلف شہروں میں واسا کی طرف سے پینے کا صاف پانی فراہم کیا جاتا ہے جب کہ شہروں کے اندرحکومت اورمختلف این جی اوز کی طرف سے ہزاروں واٹرفلٹریشن پلانٹ بھی لگے ہیں ، تاہم پھر بھی لاہور کے مضافات میں رہنے والے لاکھوں افراد آج بھی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے شہرکی نسبت دیہی علاقوں میں آلودہ پانی کی وجہ سے بیمار ہونے والوں کی شرح زیادہ ہے۔
لاہورکے مضافاتی علاقے جلوموڑ کے رہائشی 45 سالہ طارق محمود کا کہنا ہے ان کے علاقے میں آج بھی لوگ انجکٹرپمپ اور ہینڈپمپ کے ذریعے زیرزمین پانی حاصل کرتے اور استعمال کرتے ہیں۔ گاؤں میں چند سال پہلے ایک واٹرفلٹریشن پلانٹ لگایا گیا تھا جو خراب ہوچکا ہے۔ چند مقامی لوگوں نے خدمت خلق کے جذبے کے تحت واٹرفلٹریشن پلانٹ لگا رکھے ہیں ،بعض شہری وہاں سے پانی بھرلاتے ہیں جب کہ اکثر گھروں میں پانی اُبال کراستعمال کیا جاتا ہے۔
جلوموڑ کی طرح مناواں، اتوکے اعوان، برکی، ہڈیارہ، پڈانہ، واہگہ، بھانوچک، نروڑ، بھسین، دوگیج، ڈیال سمیت 85 سے زیادہ دیہات میں پینے کے پانی کی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ڈوگرائے کلاں، اتوکے اعوان سمیت چند علاقوں میں 1990ء کی دہائی میں پینے کے پانی کے ٹیوب ویل لگائے گئے تھے لیکن چند برسوں میں یہ وہ ٹیوب ویل بند ہوگئے اور علاقے میں پانی کی فراہمی کے لیے بچھائی گئی پائپ لائنیں بھی ختم ہوچکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی لوگ نجی کمپنیوں سے فلٹرشدہ پانی خرید کراستعمال کرتے ہیں جب کہ اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ گلی،محلوں میں لگے ان واٹرفلٹریشن پلانٹس کا پانی پینے کے قابل بھی ہے یانہیں۔
آلودہ پانی پینے سے شہروں کی نسبت دیہات اورمضافات میں رہنے والے مختلف اقسام کی جلدی اورپیٹ کی بیماریوں کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ کیپٹن (ر) ڈاکٹرخالد پرویز نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس زیادہ تر مریض خاص طورپربچے آتے ہیں ان کی بیماری کی وجہ پینے کا آلودہ پانی ہے۔ بچوں میں اسہال، پیٹ کی خرابی عام ہے ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ لوگ پانی اُبال کر استعمال کریں۔
دوسری طرف واسا کے ترجمان نے بتایا کہ ان کا دائرہ کار صرف شہری آبادی تک محدود ہے۔ لاہور میں پانی کی فراہمی کے لیے واسا کے 594 ٹیوب ویل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں لاہورکے مضافاتی علاقوں میں پانی کی فراہمی کی ذمے داری واسا کو دیے جانے کی ایک تجویز سامنے آئی تھی لیکن اس پربات آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔
شہری ایک طرف جہاں آلودہ پانی پینے اوراستعمال کرنے پر مجبور ہیں،وہیں دوسری طرف لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ ڈھائی فٹ کم ہو رہی ہے مگر 100 فٹ نیچے موجود یہ پانی آلودہ ہے اور پینے کے لیے مناسب نہیں ہے۔
شہر میں صاف پانی کے لیے 700 فٹ گہرائی تک بورنگ کی جارہی ہے اور ہزار فٹ سے زیادہ پر پانی موجود ہی نہیں ہے۔ شہر میں پانی کی کمی کے اثرات ابھی سے ظاہر ہو رہے ہیں۔شہریوں کے مطابق انہیں ملنے والا پانی صاف اور پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ وہ اس پانی کو پینے کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پینے کے لیے نجی کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیے جانے والے پانی کا استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی رپورٹ کے مطابق ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے۔ ملک میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کا اوسطاً 61 فیصد پانی جراثیم سے آلودہ ہوچکا ہے۔ ریسرچ کے مطابق ملک کے 29 بڑے شہروں سے پینے کے پانی کے 435 نمونہ جات لے کر انہیں قومی معیار کے لیے طے شدہ پیمانے پر جانچا گیا تو ان میں 168 یعنی 39 فیصد نمونہ جات پینے کے لیے محفوظ پائے گئے۔دوسری جانب 267 نمونہ جات یعنی 61 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں پایا گیا۔
پنجاب کے شہروں بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، قصور، لاہور، ملتان، راولپنڈی، سرگودھا، شیخوپورہ سے پانی کے نمونہ جات لے کر ان کا تجزیہ کیا گیا۔ پنجاب میں 51 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ پینے کے پانی میں جراثیم، آرسینک، فلورائیڈ، ٹی ڈی ایس اور نائٹریٹ کی نشان دہی ہوئی ہے
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں دیکھا جائے تو ملک بھر میں آلودہ پانی کی شرح 82 فیصد سے 61 فیصد تک آ گئی ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ابتدا میں پانی کی آلودگی اور اس میں موجود جراثیم اور نقصان دہ دھاتوں کی جو نشان دہی کی گئی، ان کے تدارک کے لیے اقدامات نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کی آلودگی کے عناصر اب بھی وہی ہیں جو 20 سال قبل تھے۔
ریسرچ کونسل کے مطابق پانی میں جراثیم کی تعداد واٹر سپلائی لائن کے خشک ہو جانے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی پائپ لائن میں ایک بیکٹیریا موجود ہو، اس میں ایک ہفتہ پانی نہ آئے تو ان کی تعداد اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح زیر زمین پانی کے وہ ذخائر جو کسی جوہڑ یا آلودہ پانی کے کسی اور ذخیرے کے پاس موجود ہوں، وہ آبادی میں پیٹ کے امراض کا باعث بنتے ہیں کیونکہ اس سے زیرزمین پانی بھی متاثر ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔