بانی مزدور تحریک۔۔۔۔ مرزا محمد ابراہیم
محنت کشوں کا یہ رہبر و رہنما 11 اگست 1999 کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو سوگوار کر گیا
برصغیر اور پاکستان میں ٹریڈ یونین اور ترقی پسند تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست کو 24 ویں برسی منائی گئی۔ مرزا ابراہیم 1905 میں جہلم کے ایک گاؤں کالا گجراں میں ایک چھوٹے زمیندار مرزا عبداللہ بیگ کے گھر پیدا ہوئے۔
مرزا ابراہیم جوان ہونے کے بعد کارل مارکس، اینجلز، لینن، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کے نظریات کے کٹر حامی تھے، اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے، وہ ساری دنیا کے عوام کی طرح اپنے ملک کے عوام کی خوشحالی کا خواب دیکھنا چاہتے تھے۔ مرزا صاحب ایک غیر طبقاتی اور سوشلسٹ نظام کے لیے عمر بھر لڑتے رہے، وہ ایک عظیم انسان تھے۔
انھوں نے ہمیشہ رنگ و نسل، مذہب، زبان اور فقہ اور ملکی شناخت بالاتر ہو کر عالمی انسانیت کے لیے تمام عمر جدوجہد کی۔ مرزا ابراہیم دنیا بھر میں محنت کشوں کی حکمرانی کا خواب دیکھتے رہے۔ تقسیم سے قبل اور اس کے بعد پاکستان کے محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کردیا۔ انھوں نے ریلوے کے محنت کشوں کے لیے بے پناہ مراعات لے کر دیں۔
یہ بڑی بات ہے کہ ان کے طبقے سے تعلق رکھنے والے نے عالمی شہرت پائی، وہ محنت کشوں کے بڑے دانشورکہلائے جن کے سامنے بڑے بڑے علما، سیاسی رہنما اور دانشور خاموش رہتے تھے۔ ان کے پاس مرتے دم تک کوئی اثاثہ نہیں تھا وہ لاہور میں 70 برس رہے، مگر کوئی دفتر، کوئی مکان، کوئی دکان، کوئی پلاٹ ان کی ملکیت میں نہیں رہا وہ جس طرح خالی ہاتھ جہلم کیرج ورکشاپ سے 1930 میں لاہور مغل پورہ ورکشاپ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ 1999 میں موت سے 6 ماہ قبل اپنے گاؤں کالا گجراں میں بیماری اور 94 برس کی عمر میں اپنے گھر چلے گئے، میں نے ان کے ساتھ 35 برس تک ٹریڈ یونین اور سیاست میں کام کیا اور ان کے انتقال تک میں اور میرا خاندان ساتھ رہا۔
مرزا ابراہیم نے اپنی ملازمت کا آغاز بہ طور مالی کیا پھر بھٹہ مزدور بن گئے، بعد میں وہ 1926 میں کیرج ورکشاپ جہلم میں بہ طور مزدور (معاون) بھرتی ہوگئے۔ انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز 1920 میں خلافت موومنٹ سے کیا۔ ترکی میں بھی انور پاشا کی تحریک تھی جب کہ ہندوستان میں مولانا محمد علی جوہر اور شوکت علی کی تحریک بڑے عروج پر تھی جس کا مرزا ابراہیم پر گہرا اثر تھا۔
مرزا ابراہیم نے کہا کہ اس خلافت موومنٹ کے اندر ایک اور موومنٹ بھی چل رہی تھی، جس کی بنیاد یہ تھی کہ قیامت آنے والی ہے، لہٰذا لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنا چاہیے انھیں نماز پڑھنی سکھائی جائے کیونکہ کالا گجراں انتہائی پسماندہ اور بیک ورڈ علاقہ تھا اس لیے وہاں کوئی سیاسی موومنٹ نہیں تھی نہ ہی تعلیمی سہولت تھی، نہ ہی کوئی فیکٹری یا مل تھی۔ وہاں صرف بے زمین کسان تھے بہت کم لوگوں کے پاس تھوڑی تھوڑی زمین تھی پانی کی بڑی قلت تھی بڑی معاشی بدحالی تھی۔
ہم موومنٹ میں گاؤں گاؤں گھومتے اور دن رات پھیری لگا کر گیت گاتے، لیکن ہم ظالموں کے خلاف تھے۔ کیرج ورکشاپ میں یونین موجود تھی چوں کہ ریلوے میں 1920 میں یونین بن چکی تھی جس میں، میں نے حصہ لینا شروع کردیا تھا جس کی پاداش میں میرا تبادلہ 1930 میں لاہور مغل پورہ کیرج شاپ میں کردیا گیا۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں مزدور کام کرتے تھے۔ میں لاہور میں کیرج ورک شاپ کے مزدوروں کا صدر بن گیا اور وہاں خوب جلسے جلوس کرتے رہے اس دوران میرا تعلق ایک طالب علم جے گوپال کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی سے ہو گیا یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے۔
میں امیر اور غریب کے فرق سے بڑا متاثر تھا ایک طرف دولت تھی بڑے بڑے افسران کے ٹھاٹ باٹ دوسری طرف بھوکے، ننگے مزدور۔ میں جلسوں میں تقریریں کرتا تھا پھر ایک دن ایک نوجوان میرے پاس آیا اور پوچھا کہ '' آپ اتنی سخت تقریرکرتے ہو، اس مسئلے کا حل کیا ہے؟''میں نے کہا کہ '' انگریز اس ملک اور ریلوے سے باہر چلے جائیں'' اس نے کہا کہ'' اگر برٹش انگریز باہر چلا گیا تو پھر ہندوستانی انگلش والے آجائیں گے۔''
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ '' تم کون ہو؟'' اس نے کہا کہ '' میں ریلوے شفٹنگ اسٹاف لیبر ہوں'' میں نے کہا کہ '' نہیں تم جھوٹ بولتے ہو، کیوں کہ تمہارے کپڑے بڑے صاف ہیں تم شاید سی آئی ڈی کے آدمی ہو، ہم تمہیں ماریںگے'' اور دھمکی دی۔ اس نے جواب میں پیارکیا اورکہا کہ '' میں ایم اے کا طالب علم ہوں اور کمیونسٹ پارٹی چونکہ غیر قانونی ہے، میں اس کا ممبر ہوں، میں بھیس بدل کر ریلوے میں گھومتا ہوں اور مزدوروں سے ملتا رہتا ہوں تمہاری تقریریں سنتا ہوں اس لیے تمہارے پاس آیا ہوں۔''
پھر میرا اس کے ساتھ رابطہ ہو گیا اس نے مجھے خوب پڑھایا۔ ٹریڈ یونین کیا ہے، سیاست کیا ہے، مذہب کیا ہے، سرمایہ داری کیا ہے، سوشلزم کیا ہے۔ 1935 میں کمیونسٹ پارٹی بن چکی تھی میں اس میں شامل ہو گیا اور لیبر ونگ کا انچارج بن گیا۔ اس طرح مرزا ابراہیم محنت کشوں کی عالمی تنظیم سے وابستہ ہوگئے۔ 1935 میں ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی۔ 1917 میں روس میں انقلاب آ چکا تھا جس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑے۔ انگریزوں کے خلاف شدید نفرت اور بغاوت تھی۔
1935 ہی میں ریلوے میں فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس کے صدر وی۔وی۔گری مقرر ہوئے اس کے سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے۔ وی۔وی۔گری بعد میں ہندوستان کے صدر بنے۔ انھوں نے برصغیر کے بڑے بڑے نامور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، کام کیا، جیلیں کاٹیں۔ انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، جواہر لعل نہرو، خان عبدالغفار خان، جی ایم سید، سید سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، فیض احمد فیض، حسن ناصر سمیت کئی رہنماؤں کے ساتھ کام کیا۔ تقسیم کے بعد ریلوے ورکرز کی یونین کی بنیاد رکھی۔
پاکستان کی پہلی مزدور فیڈریشن پاکستان ٹریڈ فیڈریشن بنائی۔ اس کے بانی صدر بنے ان کے ساتھ سینئر نائب صدر فیض احمد فیض، سی آر اسلم، ایرک اسپرین، عابد حسن منٹو، فضل الٰہی قربان، ڈاکٹر عبدالمالک، سوبھوگیان چندانی بھی اس فیڈریشن میں شامل رہے۔ بعد میں ایوب خان کے دور میں کمیونسٹ پارٹی انجمن ترقی پسند مصنفین، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن، ریلوے ورکرز یونین پر پابندی لگا دی گئی وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ شاہی قلعہ میں نظر بند رہے۔ 17 مرتبہ جیل گئے، 6 مرتبہ قلعہ میں بند رہے۔
انھوں نے حسن ناصر، حسن عابدی، انیس ہاشمی، محمود الحق عثمانی، ولی خان، دادا امیر حیدر، دادا فیروز دین منظور، فیض احمد فیض، حبیب جالب، عبدالصمد اچکزئی، محمد حنیف کھوکھر، سردار شوکت علی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، طفیل عباس، منہاج برنا، امام علی نازش، میجر اسحاق، افضل بنگش، غلام نبی کلو، چوہدری فتح محمد، محمد اسلم، عبدالرشید باغی، نبی احمد، ایس پی لودھی، مولانا عبدالحمید بھاشانی، میاں افتخار الدین، محمد حسین عطا، احمد ندیم قاسمی، حمید اختر، نثار عثمانی، حیدر بخش جتوئی، مسعود کھدر پوش، ظفر اللہ پوشنی، حسن حمیدی سوبھو گیان چندانی، احمد الطاف، زین الدین خان لودھی، حسین الدین لودھی، ڈاکٹر شمیم زین الدین، شمیم اشرف ملک، بیگم شمیم اشرف ملک، بیگم ایلس فیض سمیت کئی نامور سیاسی رہنماؤں، شاعروں، ادیبوں کے ساتھ بھرپور جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گزاری۔
پچھلے سال ان کے ساتھی یوسف بلوچ، عاشق حسین چوہدری فیصل آباد والے بھی چل بسے۔ محنت کشوں کا یہ رہبر و رہنما 11 اگست 1999 کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کو سوگوار کر گیا۔ ان کی مشکل اور کٹھن زندگی کو سرخ سلام۔