بچوں کی تربیت کل اور آج
آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں بھی بمشکل کامیاب ہو رہے ہیں
بچوں کی تربیت آج بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ '' جنریشن گیپ'' تو ہمیشہ ایک نسل سے دوسری نسل کے درمیان درپیش ہوتا ہے۔ گیپ والی بات تو درست ہے مگر آج اولاد کی تربیت میں صرف روایتی جنریشن گیپ نہیں ہے۔
ہمارے خاندانی نظام میں برس ہا برس سے بزرگوں کی ایک اہمیت رہی ہے اور یہ اہمیت بچوں کی تربیت میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہ مقولہ بھی اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا تھا کہ '' کھلائو سونے کا نوالہ، دیکھو شیرکی نظر سے'' مگر اب والدین کی سوچ میں بھی نمایاں تبدیلی آگئی ہے اور وہ بچوں کی تربیت میں شیرکی نظر والی بات کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں۔ کل تک ہمارا کلچر یہی تھا کہ بچے گھر کے سربراہ سے بات بھی کرتے ہوئے ڈرتے تھے، ماں بھی بچوں کو باپ سے ڈراتی تھی۔
گھر میں اگر والد صاحب موجود ہوں تو بچے آپس میں اونچی آواز میں بھی بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے، کسی بھی معاملے میں گھر کے کسی بڑے نے جو بات کہہ دی وہ حرف آخر ہوتی تھی کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ باپ یا گھر کے کسی اور بزرگ سے اپنی بات منوانے کے لیے بحث کر سکے، مگر اب ہمارے گھروں میں ایسا ماحول نہیں رہا خاص کر '' اکائی خاندانوں'' میں تو ایسا ماحول ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے۔
اب ماں باپ کا بھی عموماً یہی خیال بن گیا ہے کہ بچوں کو آزادی دو، سختی نہ کرو، مار پیٹ اور سختی بچوں کی تربیت پر برا اثر ڈالتی ہے، وغیرہ وغیرہ یعنی اب والدین نے گھر میں ایک ایسا جمہوری ماحول بنا دیا ہے جیسا کہ کسی ریاست میں ہوتا ہے چنانچہ بچے بھی اب اپنے حقوق کے لیے مکالمے اور بحث کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اب اگر والدین میں اتنی صلاحیت ہوکہ وہ بچوں کو مکالمے سے قائل کرسکیں تو ٹھیک ورنہ پھر معاملہ والدین کے اختیار سے باہر نکل جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ بچے اگر مکالمے کے ذریعے اپنا موقف ثابت کردیں تو بظاہر ان کی اخلاقی جیت ہوجاتی ہے اور والدین ان کی بات ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور بالفرض والدین کسی معاملے پر بچوں کی اس اخلاقی جیت پر اپنی مرضی چلائیں تو ان کی اخلاقی حیثیت بچوں کے سامنے متاثر ہوتی ہے، چنانچہ ایسی صورتحال میں بچوں کی اچھی تربیت کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟
بات بالکل سیدھی سی ہے کہ بچوں کو اپنے اچھے، برے کا درست علم نہیں ہوتا۔ والدین نے ایک طویل زندگی گزاری ہوتی ہے لٰہذا بچوں کے مقابلے میں وہ بہتر جانتے ہیں کہ کیا درست اور کیا غلط ہے، اب مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ جو بات یا فیصلہ درست ہو اس پر بچوں سے عمل کیسے کرایا جائے؟
ظاہر ہے کہ بچے اگر غلط فیصلے پر عمل کریں گے تو نہ صرف اس عمل کے غلط نتائج برآمد ہونگے بلکہ بچوں کی تربیت بھی غلط ہوگی، لہٰذا اب وہ کونسا طریقہ ہوگا کہ جس سے والدین بچوں کو اپنا فیصلہ قبول اور عمل کروانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟ اس ضمن میں عام طور پر والدین کے پاس دو ہی طریقے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ گھرکا سربراہ یعنی باپ وغیرہ جو کچھ کہے اسے بچے سر جھکا کر قبول کر لیں اور ان کی بات پر عمل کریں، یعنی گھر میں باپ کا اتنا احترام اور رعب ہو کہ حتمی فیصلہ باپ ہی کا قبول کر لیا جائے۔
ماضی میں بچوں پر جس قدر سختی کی جاتی تھی، اس کے سبب ماں باپ کا احترام اور رعب ایسا ہی ہوتا تھا اور چھوٹے بڑے تمام بچے بلا چوں و چراں اپنے والدین خاص کر باپ کی بات مانتے تھے یوں ان کی تربیت کرنا آسان ہو جاتی تھی کہ والدین جس راہ پر چلنے کا کہیں بچے اشارہ پاتے ہی اس راہ پر چلنے لگتے تھے۔
ماضی میں چونکہ ایک گھرانے میں باپ ہی نہیں گھر میں موجود بزرگوں کا بھی رعب ہوتا تھا لہٰذا بچوں کی تربیت میں ان کی موجودگی بھی بڑا اہم کردار ادا کرتی تھی، یوں اس سختی کے ماحول میں پلنے والے بچے بڑے ہوکر اور صاحب اولاد ہوکر بھی اپنے والدین کے نہایت فرما بردار ثابت ہوتے تھے یعنی ان پر بچپن میں کی گئی سختی انھیں والدین سے باغی نہیں بناتی تھی۔
بچوں کی تربیت کا دوسرا طریقہ جو آج کل زیادہ مقبول ہو چلا ہے اس میں روایتی انداز کی سختی نہیں بلکہ بچوں سے نرم انداز میں بات کرنا ہے کہ ان کی اچھی تربیت ہوسکے مگر اصل مسئلہ اس وقت در پیش آتا ہے کہ جب بچے کسی چیز کی ظاہری چمک کو درست سمجھ بیٹھیں اور اپنی بات ہر قیمت پر والدین سے منوانے کی کوشش کریں۔
اب ایسے ماحول میں روایتی تربیت والا طریقہ تو بڑا کامیاب رہتا ہے کہ والدین کی کہی گئی بات آخری ہوتی ہے یعنی بس جو انھوں نے فیصلہ کر دیا اسے ماننا ہی ہے اور بات ختم، مگر تربیت کے اس دوسرے طریقے میں والدین چونکہ بچوں پر سختی کے قائل نہیں، لہٰذا بات مکالمے اور دلیل سے کی جاتی ہے اور اگر اس میں والدین ہار جائیں یا بچہ ان کی دلیل ہی کو سمجھنے کی کوشش نہ کرے، رد کردے اور یہ کہہ دے کہ '' اب زمانہ بدل گیا ہے'' یا '' آپ کو نہیں پتہ دنیا کہاں جارہی ہے'' یا صاف صاف یہ کہہ دے کہ '' میں نے تو آپ کی بات ماننی ہی نہیں ہے'' تو پھر والدین کی وہ تربیت جو وہ اپنے بچے کے لیے کرنا چاہتے ہوں، ممکن نہیں رہتی۔
ہمارے ایک دوست جن کی تربیت روایتی انداز میں ہوئی تھی، بتاتے ہیں کہ بچپن میں ان کے والد جب گھر میں آتے تھے تو ایک دم خاموشی ہوجاتی تھی، بچے آپس میں آہستہ آواز میں بات کرتے تھے، والد صاحب جو کہتے تھے وہ پتھر پر لکیر ہوتا تھا، لیکن انھوں نے اپنے بچوں کو مختلف ماحول دیا، بچوں سے دوستوں کی طرح تعلقات رکھے جس کا ایک فائدہ تو ہوا کہ بچوں کے دل کی بات پتا چل جاتی تھی مگر ایک مشکل یہ ہوئی کہ بطور باپ میری بات یا فیصلہ آخری نہیں ہوتا، اگر میں چاہوں کہ بچے ایک اشارے میں میری بات مان لیں تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے میں بچوں کی جیسی تربیت کرنا چاہ رہا تھا اس میں ناکام ہوا۔
ہم نے اپنے اس دوست سے پوچھا کہ '' اب جب کہ آپ نے بچوں کی تربیت کے دونوں طرح کے ماحول دیکھ لیے تو آپ بچوں کی تربیت کے معاملے میں اپنے بزرگوں کی تربیت کو غلط تصور کرتے ہیں یا نہیں؟ '' ہمارے دوست نے ایک آہ بھری اور کہا کہ '' سچی بات پوچھو تو ہمارے بزرگ درست تربیت کر گئے، میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ بزرگوں کا انداز درست تھا کہ تمام بچے ایک آواز میں سیدھے ہوجاتے تھے، آج کل تو والدین اپنے بچے کے ہاتھ سے موبائل فون لینے کے لیے ہی بچے کی منتیں کرتے رہتے ہیں۔''
آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں بھی بمشکل کامیاب ہو رہے ہیں اور ان حالات میں وہی والدین زیادہ کامیاب ہیں کہ جو اپنے بچوں کو پیمپر پہننے کی عمر ہی سے سمجھا دیتے ہیں کہ '' بیٹا آخری فیصلہ ہمارا ہی ماننا ہے، آپ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔''