قائد کے پاکستان میں
انتقامی سیاست کا یہ عالم ہے کہ 76 سالوں میں آج تک کسی سیاست دان کوتوشہ خانہ تحائف پر نہ توسزا ہوئی اور نہ ہی نااہلی
اس امر میں کوئی کلام نہیں مہذب، باوقار، باشعور اور زندہ قومیں اپنے مذہبی اور قومی تہواروں کو بھرپور جوش و خروش، دلی جذبے اور پورے تزک و اہتمام کے ساتھ مناتی ہیں۔
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی اقوام کے لیے اپنی قومی روایات اور اپنے اسلاف کے افکار، اذکار، ہدایات اور ان کے رہنما اصول ان کے لیے مشعل راہ کا کام کرتے ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کر قوم کے رہبر اپنے وطن کے روشن و تاب ناک مستقبل کے لیے ایسے منصوبے، پالیسیاں، قوانین اور ٹھوس و جامع اقدامات اٹھاتی ہیں، جن کے عمل اور خلوص دل سے نفاذ کے ذریعے ان کا ملک ترقی وخوشحالی کی منزل کی سمت رواں دواں رہتا ہے۔
بعینہ عوام الناس کے دیرینہ مسائل و مشکلات کے حل کی راہیں متعین ہوتی ہیں انھیں ان کے آئینی و قانونی اور بنیادی حقوق کی واپسی کے مواقع میسر آتے ہیں۔ روزگار، تعلیم، صحت اور انصاف کی فراہمی جیسے مسائل حل ہوتے ہیں۔ دنیا ایسی قوموں کا احترام کرتی ہے، ان کے رہبر ان کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور دوسرے ممالک بھی ان کے تجربے، مشاہدے اور پالیسیوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
دوسری جانب وہ قومیں ہیں جو اپنے بزرگوں اور صاحب کردار رہنماؤں کے اصولوں، نظریات، اقوال، کردار اور فلسفے و فکرکو تسلیم تو کرتی ہیں اور ان پر صدق دل سے عمل کرنے اور ملک کو ان کے خوابوں کی تعبیر بنانے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے تو بڑے دھڑلے سے کرتی ہیں۔ اسی طرح مخصوص قومی تہواروں اور یادگار دنوں پر اپنے اسلاف کے اقوال زریں، پختہ روایات، اصولوں اور نظریات کے تحفظ کی یقین دہانیاں بھی کراتی ہیں۔
خصوصی دنوں اور مواقعوں پر یادگاری جلسے، جلوسوں، سیمیناروں اور مذاکروں کا اہتمام کر کے وہاں اپنے اسلاف کے کارناموں کو یوں بڑھ چڑھ کر بیان کرتی ہیں کہ جیسے ان سے بڑا ان کا چاہنے والا کوئی نہ ہو، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب عمل کا وقت آتا ہے ان کے عمل کا خانہ خالی نظر آتا ہے۔ ان کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا زریں کارنامہ نہیں ہوتا جو دوسروں کے لیے روشن مثال بن سکے، جسے دنیا کے سامنے پورے یقین و اعتماد کے ساتھ فخریہ انداز میں پیش کیا جاسکے۔
یاد رکھنے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں ایسی قوموں کی کوئی عزت و وقار اور قدر و منزلت نہیں ہوتی ، وہ معتبر مقام حاصل نہیں کر پاتیں اور نہ ہی ان کی کسی بات کو عالمی سطح پر قابل غور سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی توجہ سے سنا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا وطن عزیز پاکستان دوسری جانب موجود قوموں کی قطار میں سر جھکائے شرمندہ شرمندہ کھڑا نظر آتا ہے۔ بقول شاعر:
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
کل پوری قوم 76 واں یوم آزادی منانے جا رہی ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ ان 76 برسوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ کیا ہم نے من حیث القوم ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ ہمارا شمار دنیا کی مہذب، باوقار، قابل اعتبار اور باشعور اقوام کی صف میں ہو سکے؟ کیا عالمی سطح پر ہمارے کسی اندرونی، بیرونی، علاقائی اور عالمی مسئلے کے حوالے سے ہماری بات کو توجہ و دھیان سے سنا جاتا ہے؟
اور کیا اقوام عالم کسی بھی مسئلے پر ہمارے موقف کو درست تسلیم کرتی ہے؟ کیا ہمارے مسائل کے حل کے لیے دنیا کے کسی کونے سے ہمارے حق میں آواز بلند ہوتی ہے؟ کیا کشمیر سے فلسطین تک اور اسرائیل سے بھارت تک ہمارے موقف کو تسلیم کیا گیا؟ افسوس کہ ان سوالوں کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔
کل پوری قوم بھرپور انداز میں جشن آزادی منائے گی، نگران حکومت سے لے کر اپوزیشن تک، پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک اور عوام الناس کی سطح تک مختلف تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کی طرف سے یوم آزادی کے موقع پر حسب روایت جلسے، جلوس، مذاکرے اور سیمینار کا اہتمام کیا جائے گا۔
حکومتی زعما، اپوزیشن رہنماؤں، وکلا برادری، صنعت کار، طلبا، مزدور اور کسان غرض ہر سطح پر روایتی بیانات کی گھن گرج سنائی دے گی اور ملک قائد اعظم کے سیاسی فلسفے، اصولوں، نظریات اور ارشادات و ہدایات کی روشنی میں ڈھالنے اور علامہ اقبال کے خوابوں کو تعبیر دینے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے جائیں گے۔ قوم کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے، صبر و تحمل کا درس دے کر سبز باغ دکھائے جائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ آج ملک معاشی و سیاسی حوالے سے جس مقام پر کھڑا ہے اس میں قصور وار کون ہے؟ کس نے قائد اعظم کے اصول، سیاست، نظریات اور ان کے فرمودات کو نظر انداز اور پامال کیا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ جو طبقہ صاحب اختیار تھا جس نے 76 سال تک اقتدار کے مزے لوٹے اور جس طاقتور حلقے نے پس پردہ اپنا کھیل رچایا، آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑکیا، جمہوریت اور آمریت کا ملغوبہ بنایا اسی نے ملک کو آج اس حال پر پہنچایا۔ سیاسی و غیر سیاسی ہر دو قوتوں نے ملک کو معاشی، سیاسی، آئینی، قانونی اور عدالتی ہر حوالے سے مفلوج کردیا۔
ہر شعبہ رو بہ زوال، ہر ادارے کی کارکردگی کے آگے بڑے بڑے سوالیہ نشانات اس کی زبوں حالی کی علامت ہیں۔ قائد اعظم بااصول سیاست دان تھے، انھوں نے اپنی حکمت، بصیرت اور تدبر سے آزاد وطن حاصل کرلیا، لیکن اس کی باگ ڈور سنبھالنے والے حکمرانوں نے اصولوں کی نہیں بلکہ ذاتی، سیاسی، خاندانی مفادات اور انتقام کی سیاست کی، قومی و ملکی مفادات کو قربان کردیا۔ سیاسی لوگوں نے بھی جمہوریت کو مذاق بنایا اور پارلیمنٹ کوکمزور کیا اور آئین کو اپنے مفادات کی خاطر پامال کیا۔
گزشتہ ہفتے رخصت ہونے والی حکومت کی جمہوری حکمرانی میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ساتھ جوکھلواڑ کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک ایک دن میں درجنوں کے حساب سے بلز منظور کیے گئے، بعض بلز تو ایسے تھے جس پر اپوزیشن اور خود حکومتی اراکین بھی سراپا احتجاج تھے۔ گویا یہ بلز '' کہیں اور'' سے منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے۔ مبصرین اور تجزیہ کار بھی دھڑلے سے اور دھڑا دھڑ بغیر پڑھے بغیر مشاورت اور سوچے سمجھے بغیر ہونے والی اس قانون سازی پر حیران اور ششدر ہیں کہ جمہوریت کے دعوے دار سیاست دان ہی پارلیمنٹ کو آئین کا قبرستان بنا رہے ہیں۔
کیا قائد اعظم اسی جمہوریت کے قائل تھے؟ انتقامی سیاست کا یہ عالم ہے کہ 76 سالوں میں آج تک کسی سیاست دان کو توشہ خانہ تحائف پر نہ تو سزا ہوئی اور نہ ہی نااہلی لیکن پی ٹی آئی چیئرمین کو تین سال قید اور پانچ سال کے لیے توشہ خانہ کیس میں نااہل کردیا گیا۔ کیا قائد اعظم نے کبھی انتقامی سیاست کا سبق دیا۔ قائد اعظم کے پاکستان میں سیاست، عدالت، انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں اور کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔