تاریک راہوں کا ’’ نذیر‘‘
نذیر عباسی ان انقلابیوں میں سے تھا جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہر سانس ہر عمل انقلاب کے ساتھ وابستہ کیا ہوا تھا
توپ و تفنگ کی طاقت پہ اترانے والے حکمران سمجھ بیٹھے تھے کہ عوام کی جمہوری آزادی کے لیے لڑنے والے کمیونسٹوں حسن ناصر اور نذیر عباسی کو عقوبت خانوں میں تشدد اور جبرکے تحت قتل کر کے وہ جیت چکے ہیں اور عوامی ضمیر کو سلا کر وہ جمہور کی سیاسی آزادی اور ان کے سیاسی شعور کو دبا لیں گے، مگر تاریخ کبھی آمروں کی مرضی و منشا سے اپنا سفر طے نہیں کرتی، بلکہ تاریخ جمہوریت کی راہ میں جان کا نذرانہ دینے والوں کے لہو سے شعورکے وہ روشن چراغ جلا جاتی ہے کہ جس کی مدہم لو زمانے میں آمروں کے بدنما چہرے عوام کے سامنے لے آتی ہے۔
آج کمیونسٹ نوجوان رہنما نذیر عباسی کی قربانی سے ملک کے عوام کا سیاسی شعور اس منزل پر ہے کہ تمام تر جبر و استبداد کے باوجود آمرانہ قوتیں عوام کے کٹہرے میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں، سکھر کے ترقی پسند شاعر حسن حمیدی اس وقت درست ہی تو لکھ رہے تھے کہ ...
میرے اس گائوں کے اندھیرے سے
جہل و افلاس کے گھروندے سے
ایک بچہ '' نذیر'' جس کا نام
لے کے نکلا وہ ذہنِ تشنہ کام
آگہی کی تلاش تھی اس کو
روشنی کی تلاش تھی اس کو
کاپیاں اور قلم لیے نکلا
آرزو کا علم لیے نکلا
ہمارے سماج میں اب بھی '' نذیر عباسی کا راستہ ... ہمارا راستہ یا نذیر عباسی کی کمیونسٹ جدوجہد کو سرخ سلام '' کہنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے، قبر پر بھی جایا جاتا ہے، مگر الگ الگ ٹولیوں میں الگ الگ جھنڈوں اور درانتی ہتھوڑے کے نشان سے ماورا علم لیے، یہ قافلے اپنے اپنے طور نذیر عباسی کو خراج پیش کرتے ہیں مگر نذیر عباسی کے کمیونسٹ فکر اور پارٹی کو عملی طور سے اپنانے یا سب کو جوڑنے کے عمل سے کوسوں دور ہیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا ٹولیوں میں منقسم ہونا اور گروہ بندیوں کا شکار ہوکرکمیونسٹ نظریے اور پارٹی کوکمزورکرنا ہی نذیر عباسی کا مشن یا راستہ تھا؟
آج کے ابتلا اور طاقت کے نشے میں سرشار حکمران طبقے کی خرمستیوں سے بھوکے ننگے عوام کو مہنگائی، بیروزگاری سے نجات کون دلوائے گا؟ کون نسل کی تعلیم اور صحت کی مفت فراہمی کا بندوبست کروائے گا، کون تنگ نظری اور دہشت گردی سے عوام کو قتل ہونے سے بچائے گا، کون خواتین کی آبرو اور ان کی ہراسمنٹ کو روکے گا، کون تعلیمی درسگاہوں میں طلبہ کے حق یونین سازی کو نافذ کروائے گا، کون عوام کے دکھ درد کی دوا بنے گا،کون فیکٹریوں اور اداروں میں نظریاتی بنیادوں پر انجمن سازی اور ٹریڈ یونین بنائے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جواب کے لیے نذیر عباسی اب تک ان نظریاتی دوستوں سے پر امید ہے جو اس کی جدوجہد کو خراج پیش کرتے ہیں، مگر نذیر عباسی کی جدوجہد یا قربانی کا نقطہ عروج یہی ہے کہ بچھڑے طبقے اور دوست یک جان ہو کرکمیونسٹ آدرش اور پارٹی کو نظریاتی استحکام دیں، وگرنہ خراج سے انفرادی یا سماجی تبدیلی ممکن نہیں ہے، یاد رکھا جائے کہ نذیر عباسی آج بھی مقتل میں آزردہ لہجے میں خراج دینے والوں سے صرف عملی جواب کا منتظر ہے۔
آمر ضیا الحق کے خلاف PFUJ کی صحافتی جدوجہد کے دوران اسیر رہنے والے ہمارے لائلپوری صحافی اور دوست مسعود قمر نے سویڈن سے نذیر عباسی کی نظریاتی پختگی اور نظریاتی استقامت کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ '' صبح کوئی نو یا دس بجے کا وقت ہوگا کہ مجھے کامریڈ عزیز نے کہا کہ یہ سندھ سے آئے ہوئے نوجوان ہیں، یہ پارٹی اجلاس سے پہلے لاہور دیکھنا چاہتے ہیں، ان میں نذیر عباسی، جبار خٹک اور لیاری کے کچھ اور نوجوان تھے، میرے سامنے مونچھوں کو ایک ہاتھ سے مروڑتا اور دوسرے ہاتھ میں سگریٹ پکڑے، باتوں میں قہقہہ لگاتا، نذیر عباسی لیاری کے چند کامریڈز کے ساتھ کھڑا تھا، میں نے ان سے پوچھا '' آپ لاہور میں کیا دیکھنا چاہتے ہیں؟''
تو نذیر عباسی نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا کہ ''شاہی قلعہ اور انارکلی۔'' مجھے حیرانگی ہوئی کہ ان کے بارے میں تو سنا تھا کہ یہ انقلابی ہیں تو ان کو شاہی قلعہ دیکھنے کا کیا شوق ہے، میں نے کہا '' ٹھیک ہے پہلے شاہی قلعہ چلتے ہیں،کیونکہ انار کلی تو شام کے بعد دیکھنے کی چیز ہے'' ہم جیسے ہی شاہی قلعہ پہنچے تو یہ بات مجھ پر عیاں ہوچکی تھی کہ نذیر عباسی شاہی قلعہ کیوں دیکھنا چاہتا ہے، شاہی قلعے کے اندر داخل ہوتے ہی نذیر عباسی نے کہا کہ '' کامریڈ مسعود ہمیں صرف وہ کوٹھڑی دیکھنی ہے، جس میں حسن ناصر کو رکھا گیا تھا۔''
میں نے وہاں موجود عملے کے بہت لوگوں سے بات کی مگر کوئی بھی ہمیں اس کوٹھڑی تک لے جانے کے لیے تیار نہ تھا بلکہ بہت سوں نے اس کوٹھڑی سے لاعلمی کا اظہارکردیا، ایک نے کہا کہ وہ کوٹھڑی تہہ خانہ کے اندر ہے اور وہاں صرف پولیس کے لوگ یا قیدی جا سکتے ہیں، بڑی مشکل سے ایک سپاہی پچاس روپے کے عیوض تیار ہوا مگر اس نے کہا '' میں اتنے سارے لوگوں کو وہاں لے کر نہیں جاسکتا، ایک آدمی یا زیادہ سے زیادہ دو آدمی جاسکتے ہیں۔''
ہم نے نذیر عباسی اور لیاری سے ایک اور کامریڈ کو اس سپاہی کے ساتھ روانہ کر دیا، کوئی آدھا گھنٹے کے بعد جب نذیر عباسی اور وہ کامریڈ واپس آئے تو نذیر عباسی کا سگریٹ اور قہقہہ بجھا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا کہ نذیر عباسی کے اندر بہت تشدد ہوا ہے اور اس سے چلا نہیں جا رہا تھا، ہم سب وہیں زمین پر بیٹھ گئے، نذیر عباسی سے بولا نہیں جا رہا تھا، میں سمجھ گیا کہ یہ سب حسن ناصرکی کوٹھڑی دیکھنے کا رد عمل ہے، میں نے ایک سگریٹ سلگایا اور نذیر عباسی کی طرف بڑھا دیا۔
نذیر عباسی نے میری طرف دیکھا اور سگریٹ کا کش لیتے ہوئے آنکھ ملنے لگا، وہ ظاہرکررہا تھا کہ سگریٹ کا دھواں آنکھ میں چلا گیا ہے، پتہ نہیں سگریٹ کا دھواں آنکھ میں گیا تھا یا نہیں مگر جو آنکھ سے باہر نکل رہا تھا وہ سب دیکھ رہے تھے۔
نذیر عباسی سے اپنی آخری ملاقات کے بارے میں مسعود قمر نے لکھا کہ '' جب میں تحریک آزادی صحافت کی قید کاٹ کر رہا ہوا تھا اور چند دنوں کے لیے لیاری میں دوست کے گھر ٹہرا ہوا تھا تو ایک دوپہر دوست نے کہا کہ مسعود آج کہیں جانا ہے، اور وہ شام کو مجھے مختلف بسیں تبدیل کر کے فیڈرل بی ایریا کے ایک فلیٹ میں لے گیا، جس میں پہلے سے نذیر عباسی بیٹھا تھا۔ نذیر عباسی نے کھلے قہقہے اورکھلی بانہوں سے مجھے جھپی ڈالتے اٹھا لیا، اس نے مجھے بتایا کہ مجھے علم ہوگیا تھا کہ تم رہا کر دیے گئے ہو، میں نے ہی ملاقات کا کہا تھا پھر تم نے پنجاب چلے جانا تھا اورکیا پتا کہ ملاقات ہو بھی یا نہ ہو، اور ... اور پھر میری نذیر عباسی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔
نذیر عباسی ان انقلابیوں میں سے تھا جس نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ہر سانس ہر عمل انقلاب کے ساتھ وابستہ کیا ہوا تھا، نذیر عباسی نے جان دے دی، تشدد سہا مگر پارٹی کو بچایا۔