پختون قومی تحریک کے تنازعات

’’نیشلزم کا جدید نقطہ نظر‘‘ کی بنیاد پر از سرنو جائزہ لیا جانا چاہیے


جمیل مرغز August 13, 2023
[email protected]

ڈارون نے جب فطرت میں جانوروں اور پودوں کی مختلف نسلوں کی بقاء اور بعض نسلوں کے معدو م ہو نے کی وجوہات پر طویل تحقیق کی' تو انھوں نے (Survival of the fittest) کا بنیادی اصول دریافت کیا 'یہ اصول معاشروں اور نظریات پربھی لاگو ہوتا ہے انھوں نے اس اصول کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے۔

''It is not the strongest of the species that survives nor the most intelligent that survives.It is the one that is most adoptable to change''.

فطرت میں اپنی بقاء کے لیے کسی نسل کا بہت طاقت ور یا بہت ہو شیار ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں خصوصیات رکھنے والی نسلیں ختم ہو جاتی ہیں'صرف وہ نسلیں قائم رہتی ہیں جو ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں 'اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنے قوم پرستی کے نظریے کے اہداف کا از سر نو جائزہ لیں اور وہ راستے اور طریقے اختیار کریں جن سے پختون قوم کے قومی مسائل حل کرنے کی طرف پیش رفت ہو سکے 'کیونکہ پختون قوم کو اب بھی کافی مسائل کا سامنا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روایتی پختون قومی تحریک' باوجود بیش بہا قربانیوں کے قومی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے' شاید اس وجہ سے کہ یہ تحریک زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اپنے آپ کو ڈھالنے میں ناکام رہی ہے۔

کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ تقریباً100سالہ جدوجہداور بے شمار قربانیوں کے باوجود6کروڑ پختون آج بھی حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔ معاشرہ جامد نہیں ہے اب تو دنیا اور بھی بہت آگے جا چکی ہے اور اس کا سفر تیزی سے جار ی ہے تو کیا نیشلزم کا فلسفہ اور اس کے اہداف اور طریقہ کار جامد ہوگئے ہیں' کیا ہمارا معاشرہ باقی دنیا سے کٹ گیا ہے ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر پختونوں کو آج اس سوال کا سامنا ہے کہ کیا ہم آج بھی 1930 کے دور میں رہ رہے ہیں؟

یا حالات بدل چکے ہیں اور نیشلزم کی نئی تعبیر اور اس کے نئے اہداف وقت کی ضرورت ہیں' نوآبادیاتی دور کے بعد جب یورپی سامراجی طاقتیں قومی آزادی کی تحریکوں کی وجہ سے اپنی نوآبادیات چھوڑ نے پر مجبور ہوئیں اور نوآبادیات پر قبضے کے لیے شروع کی گئی دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کی طاقت کا خاتمہ کردیا تو ان کا کردار ختم ہوگیا اور ان کی جگہ امریکی سامراج نے نیا نظام قائم کیا جس کو نیو نو آبادیاتی نظام (Neo-Colonialism) کہتے تھے 'اس دور میں قومی وسائل کے سامراجی استحصال کا ذریعہ ڈائرکٹ فوجی قبضے کے بجائے معاشی اداروں کے ذریعے کسی ملک کا استحصال تھا' جس کے لیے جنگ عظیم دوم کے بعد1944میں برٹن ووڈز کانفرنس (Bretton Woods)میں سامراجی طاقتوں نے عالمی بینک' آئی ایم ایف اور WTOجیسے ادارے بنائے تھے' جن کا مقصد تیسری دنیا کے نوآزاد نوآبادیات کو اپنے قابو میں رکھنا اور ان کے وسائل کا استحصال ان کا مقصد تھا۔

اس وقت دنیا دو طاقتی تھی۔ سوشلسٹ کیمپ نوآبادیات میں قوم پرست اور سامراج دشمن تحریکوں کی مدد کرتا تھا' پاکستان میں ایک حقیقی وفاق کا قیام قومی تحریک کا ہدف رہا۔اب دنیا کثیرالطاقتی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں روایتی قوم پرستوں کا دعویٰ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک حقیقی وفاقی نظام قائم ہو چکا ہے اور قومی تحریک اپنے اہداف حاصل کرچکی ہے' تو سوال کیا جا سکتاہے کہ پھر کیوں پاکستان میں پختون آج بھی ان بنیادی قومی مسائل سے دو چار ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے؟

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ روایتی قوم پرست تحریک ان مسائل کو حل کرنے اور نئے تقاضوں کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہے 'اب گلوبلائزیشن کی وجہ سے نہ صرف ریاستوں بلکہ قوموں کے مفادات آپس میں جڑچکے ہیں۔

کسی قوم کی سماجی اور معاشی ترقی اور ان کے مفادات کا تحفظ روایتی قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے بس کا کام نہیں بلکہ ان پارٹیوں کا وجود قوموں کی پسماندگی کا باعث بنی ہوئی ہیں' اس لیے دور حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر حقیقی پختون قوم پرست قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے' تاکہ '' نیو نیشلزم کے جدیدنقطہ نظر'' کے مطابق اور گڈ گورننس کے ذریعے قومی حقوق کا حصول ممکن بنایا جا سکے کیونکہ عالمی اور ملکی مسائل کی آماجگاہ آج بھی پختون قوم کی سر زمین ہے۔

پاکستان میں پختون قومیت منقسم ہے 'جنوبی پختون ایریاز بلوچستان کا حصہ ہیں' شمالی میں شمال میں پختون خیبر پختوا کی بھاری اکثریتی آبادی ہے۔ بلوچستان میں ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پختونوں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے جب کہ شمال میں خیبر پختونخوا کی پشتو بیلٹ میں پہلے ولی خان مرحوم اور اب اسفند ولی خان کی سربراہی میں عوامی نیشنل پارٹی پختونوں کے حقوق کی علمبردار ہے لیکن خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی پانچ سالہ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے قوم پرست سیاسی حلقوں اور کارکنوں میں مایوسی اور ایک خلاء پیدا ہو نے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا ۔

20 ویں صدی کی ابتد میں خدائی خدمتگار تحریک قوم پرستی اور سامراج دشمنی کی علمبردار تھی جب کہ فاٹا میں حاجی صاحب ترنگزئی'کاکاجی اور فقیر ایپی وغیرہ بھی اپنے طور پر سامراج مخالف تحریک میں مصروف تھے ' تب پختونوں کی قومی تحریک کا ا یک نکاتی ایجنڈا متحدہ ہندوستان کی آزاد ی تھا' جب ہندوستان کو تقسیم کرکے پاکستان بنانے کی بات ہوئی' تو خدائی خدمتگار تحریک نے بنوں قرارداد کے ذریعے پاکستان کا حصہ بننے والے پختون علاقوں پر مشتمل الگ آزاد ریاست کا مطالبہ پیش کیا' جس کو خود اپنی پارٹی سے پذیرائی نہیں ملی اور شمال مغربی سرحدی صوبہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔

اس کے بعد پاکستان کے اندر قومی تحریکوں کا ایجنڈا ایک وفاقی جمہوری ریاست کا قیام رہا۔1973 میں آئین ملا لیکن قوم پرست قیادت ایک متحدہ پختون اکثریتی صوبے کے حصول میں ناکام رہی' یوں پختونوں کے مسائل کم و بیش آج بھی وہی ہیں'جو قیام پاکستان کے وقت تھے'اسی لیے اب پاکستان میں بسنے والے پختونوں کو ایک نئے ویژن کی ضرورت ہے۔

''نیشلزم کا جدید نقطہ نظر'' کی بنیاد پر از سرنو جائزہ لیا جانا چاہیے۔ شخصیت پرستی اورقوم پرستی دو الگ الگ چیزیں ہیں'ان کو یکجا دیکھنے والے شاید ماضی میں رہ رہے ہیں۔ آج روایتی نعروں' باچا خان کی تصویروں اور چند شاعروں کی تخلیقات سے قومی تحریک زندہ نہیں رہ سکتی۔قومی تحریک کی کامیابی کے لیے مسائل کا ٹھوس تجزیہ اور ان کا حل پیش کرنا ہوگا تاکہ قوم کا باشعور طبقہ اس سے مطمئن ہو جائے ۔ پختون قوم کے اصل مسائل اورقوم پرست پارٹیوںکے متنازعہ صورت حال اور موقف کا آیندہ جائزہ لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔