گردشی قرضوں سے نجات کب ملے گی
نئے الیکشن عنقریب ہونے والے ہیں، ہماری قوم کو ایک بار پھر اپنے نئے حکمراں منتخب کرنے کا موقعہ ملنے والا ہے
پاکستان میں ہمارا شعبہ توانائی گزشتہ 15 برسوں سے گردشی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ گردشی قرض کسے کہتے ہیں۔
کراچی کے سوا سارے ملک میں بجلی کی فراہمی کا سارا نظام حکومت کے پاس ہے۔ جب حکومت بجلی پیدا کرنے والے اور ساتھ ہی ساتھ تیل اور گیس فراہم کرنے والے اداروں کو معاوضے کی ادائیگی بر وقت نہیں کر پاتی تو پھر جو قرض بنتا اور بڑھتا رہتا ہے، اسے گردشی قرض کہا جاتا ہے۔
حکومت عوام سے تو بر وقت بجلی اور گیس کے بل وصول کر لیتی ہے لیکن پھر انھیں بجلی اورگیس کمپنیوں کو ادا نہیں کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ گردشی قرضوں کا حجم مسلسل بڑھتا جاتا ہے۔
2008 میں جب پرویز مشرف کے دور کے بعد پہلی جمہوری حکومت برسر اقتدار آئی تو اس وقت گردشی قرض تقریباً ساڑھے چھ ہزار ارب روپے تھا، جو پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں بڑھ کر ساڑھے تیرہ ارب روپے تک جا پہنچا۔ 2013 میں مسلم لیگ کی حکومت نے اس جانب بھرپور توجہ دی اور اسے کم کرنے کے لیے سارا زور لگا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دور حکومت میں یہ قرض مزید بڑھنے کے بجائے کچھ کم ہوگیا۔
جون 2018 میں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے تک اس قرض کا مجموعی حجم ساڑھے گیارہ ہزار یعنی 1148 ارب روپے رہ گیا، لیکن تحریک انصاف کے دور میں یہ قرض ایک بار پھر تیزی سے بڑھنے لگا اور صرف ابتدائی دو سالوں میں یہ تیئس ارب تک جا پہنچا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ اس کی تصدیق کرنے کے لیے GOOGLE کو ٹٹولا جا سکتا ہے۔ اسی لیے جب ہم کہتے ہیں کہ مسلم لیگ حکومت کی کارکردگی دیگر جماعتوں کی نسبت ہمیشہ اچھی اور بہتر رہی ہے تو یہ کوئی غلط یا سیاسی وابستگی کی وجہ سے نہیں بلکہ زمینی حقائق کی روشنی میں کہتے ہیں۔
مسلم لیگ نے اپنے ہر دور میں ملک اور قوم کی بہتری اور خوشحالی کے کام کیے ہیں چاہے اسے اپنی آئینی مدت بھی پوری کرنے نہیں دی گئی۔ اپنے سب سے پہلے دور میں اس نے موٹر وے جیسا عظیم منصوبہ شروع کیا۔ دوسرے دور حکومت میں اسلام آباد سے پشاور تک ایک اور موٹر وے بنائی اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کر کے پاکستان کو تسلیم شدہ ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل کروایا۔
حالانکہ میاں نوازشریف کو اُن دھماکوں کا خمیازہ بعد ازاں اپنی معزولی کی شکل میں بھگتنا پڑا، لیکن وہ اپنی اس عادت سے باز نہیں آئے۔ 2013 میں جب انھیں ایک بار پھر قومی خدمت کا موقعہ ملا، تو سخت مشکل حالات میں بھی انھوں نے ایک نہیں کئی کارنامہ سرانجام دیے۔ سب سے پہلے اِن گردشی قرضوں کا بوجھ ہلکا کیا، پھر ملک بھر میں طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ کیا اورکراچی کا امن بحال کیا۔ اس کے علاوہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی اور قوم کو اندھیروں سے نجات دلائی۔
مسلم لیگ کے دور میں گردشی قرضوں میں کمی ایک بہت ہی بڑا کارنامہ تھا۔ جسے آج تک کوئی بھی دوسرا حکمراں چیلنج نہ کرسکا۔ کہنے کو تحریک انصاف کے چیئرمین بہت بڑے محب وطن لیڈر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن وہ بھی کوئی ایک ایسا بڑا منصوبہ پیش نہیں کرسکے جس سے میاں صاحب کے کارناموں کا موازنہ کیا جاسکے۔
مخالفین میاں صاحب کے بارے میں غلط بیانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے طویل مدتی منصوبے ترتیب نہیں دیے۔ بس صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر کام کیا، جب کہ سارے ملک میں موٹر ویز اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے طویل مدتی دور رس فوائد کے حامل نہیں تھے تو اورکیا تھا۔
1990 میں شروع کیا جانے والا موٹروے منصوبہ جس کی اہمیت و افادیت تمام کوششوں کی باوجود آج بھی کم نہیں کی جاسکی ایک طویل مدتی منصوبہ ہی تھا، جس کی ثمرات سے آج بھی سارے پاکستانی مستفید ہو رہے ہیں۔ ان کے مخالفین بھی جب اِن شاہراہوں سے گذرتے ہیں تو دل میں میاں صاحب کے وژن کی تعریف کیے بنا نہیں رہ پاتے۔ اسی طرح سی پیک جیسا عظیم منصوبہ بھی کوئی مختصر میعاد کا منصوبہ نہیں ہے، یہ بھی اس قوم کی اگلی نسلوں کے کام آنے والا منصوبہ ہے۔
گردشی قرض اگرکسی دور میں کم ہوئے تو وہ میاں صاحب کے دور ہی میں کم ہوئے۔ اس کے بعد اس میں بے تحاشہ اضافہ ہی ہوا۔ قوم پر یہ بوجھ نجانے کب ختم ہوگا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عوام سے تو بجلی کے بل بر وقت وصول کر لیے جاتے ہیں، لیکن انھیں بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا نہیں کیے جاتے ہیں۔ بجلی کے نرخوں پر سے سبسڈی بھی ختم کردی گئی ہے اور ہر ماہ فیول ایڈجسمنٹ کے نام پر اضافی سر چارج بھی باقاعدہ وصول کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی گردشی قرضوں میں اضافہ ایک تکلیف دہ بات ہے۔
حکومتیں اپنے شاہانہ خرچ کے اخراجات قوم سے وصول کرتی ہے اور بجلی کی چوری کی روک تھام بھی موثر طریقے سے نہیں کرتی، جس کا خمیازہ وہ لوگ ادا کرتے ہیں جو ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔ بجلی بنانے والی کمپنیاں اپنے معاوضے کے نہ ملنے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کم کر دیتی ہیں اور اس طرح ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بجلی بنانے والی ہماری تمام کمپنیاں جنھیں IPP کہا جاتا ہے تھرمل بجلی پیدا کرتی ہیں اورجس کے لیے انھیں تیل اور گیس کی ضرورت ہوتی ہے، جب حکومت ان کمپنیوں کو اُن کے معاوضے کی ادائیگی بروقت نہیں کرتی ہے تو وہ بھی تیل اورگیس کمپنیوں کو ان کی رقم ادا نہیں کر پاتے، اس طرح یہ گردشی قرضوں کا حجم قوم کی سکت سے باہر ہوتا جاتا ہے۔
IMF قوم پر سارا بوجھ ڈالنے کے طریقے بتاتا ہے اور قوم حکمرانوں پر اپنا غصہ نکالتی رہتی ہے۔ کسی کی نا اہلی کا خمیازہ ہماری قوم کب تک بھگتتی رہے گی۔ جو جتنا کذب بیانی اور جھوٹ سے کام لے اور قوم اسے ہی اپنا قائد بنا لیتی ہے، لہٰذا گردشی قرض ہوں یا غیر ملکی قرض، ادا اس قوم کو ہی کرنے ہیں۔ یہ اب قوم کی صوابدید پر مبنی ہے کہ وہ کسے اگلا حکمراں بناتی ہے۔ اسے جس نے انھیں ان قرضوں میں ڈبویا ہے یا پھر اسے جس نے اسے اِن قرضوں سے نجات دلانے کی حتی المقدورکوشش کی ہے۔
نئے الیکشن عنقریب ہونے والے ہیں، ہماری قوم کو ایک بار پھر اپنے نئے حکمراں منتخب کرنے کا موقعہ ملنے والا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسے اپنا حکمراں بناتے ہیں۔IMF نے ہمیں وقتی طور پر ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا ہے، لیکن ہم نے اگر اپنا رویہ نہ بدلا تو پھر کوئی بھی ہمیں دیوالیہ ہونے سے بچا نہیں پائے گا۔