یومِ آزادی اور 2 پرچموں کی کہانی

یہ عجب نفسیاتی معاملہ ہے کہ پاکستان سے قدم باہر رکھتے ہی سر زمینِ پاکستان اور پرچمِ پاکستان سے محبت بڑھ جاتی ہے


Tanveer Qaisar Shahid August 14, 2023
[email protected]

آج پاکستان کے24کروڑ عوام پاکستان کا 76واں یومِ آزادی منا رہے ہیں ۔ آج قومی تعطیل بھی ہے۔

اخبارات نے، حسبِ سابق، یومِ آزادی کی مناسبت سے خصوصی رنگین ایڈیشنز شایع کیے ہیں ۔ حسبِ ماضی اِس یومِ آزادی پر بھی جشن منائے جا رہے ہیں۔ قومی سطح پر سبز پرچموں کی بہار ہے ۔ ٹی وی اسکرینیں بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کے ارشاداتِ گرامی سے گونج رہی ہیں۔

یہ علیحدہ بات ہے کہ عوام اور ہمارے ہمہ قسم کے حکمران بانیِ پاکستان کے ارشاداتِ عالیہ پر کم کم عمل کرتے ہیں۔ قومی اور عملی سطح پرہمارے قول و فعل میں شدید تضادات پائے جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 76ویں جشنِ آزادی کے باوجود اُداسیوں اور مایوسیوں نے پوری قوم کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے ۔ خاص طور پر پاکستان کا نوجوان طبقہ پاکستان کے ہمہ قسم کے حکمران طبقات اور بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ کی موجودگی میں بے حد پریشان اور ملک سے مایوس ہے۔ اور یوں اپنے مستقبل سے بھی یہ نوجوان طبقہ دلبرداشتہ ہے۔

عالم یہ ہے کہ ہمارے سیکڑوں نوجوان حال ہی میں ملک کے حالات اور ملکی حکمرانوں کے اقدامات سے مایوس ہو کر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے نکلے اور یونانی سمندروں میں ڈُوب کر جاں بحق ہو گئے ۔ اُن بیکس پاکستانی نوجوانوں کو اپنے ملک کی مٹّی بھی نصیب نہ ہو سکی۔

ایسی مایوس کن فضا میں ایک مسرت انگیز خبر بھی ملی ہے ۔ اِس یومِ آزادی کے آس پاس نیویارک کی ایک معروف شاہراہ کانام ہمارے قومی و شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال سے موسوم کیا گیا ہے ۔یہ خبر 12 اگست 2023 کو سامنے آئی ہے ۔ وائس آف امریکا نے بھی اِس کی تصدیق کر دی ہے۔

نیویارک کے چار معروف بوروز میں سے ایک بورو ( کوئینز)کے علاقے ''رچمنڈ ہلز'' کی ایک مصروف و معروف سڑک کو علامہ محمد اقبال ایونیو سے موسوم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے سب سے بڑے شہر میں پاکستانی کمیونٹی کے وجود اور اُن کی خدمات کو بھی مانا اور تسلیم کیا گیا ہے۔ اِس کے لیے بلا شبہ نیویارک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو خاصی جدوجہد کرنا پڑی ہے ۔ اِس سے قبل نیویارک ہی کے دوسرے بڑے بورو( بروکلین) کے ایک علاقے '' کونی آئی لینڈ ایونیو'' کی ایک سڑک کو بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے معنون کیا جا چکا ہے۔

امریکا میں مقیم پاکستانی پاکستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی حالات اور پاکستان کے ہمہ قسم کے حکمرانوں کے کرتوتوں سے مایوس ہو کر ملک سے نکل گئے اور امریکا کی اجنبی سرزمین میں ہولے ہولے قدم جمالیے ۔ مگر وہ بانیانِ پاکستان کے احسانات اور مہربانیوں کو فراموش نہیں کر سکے۔ نیویارک میں مذکورہ بالا دونوں مشہور سڑکوں کے ناموں کو بانیانِ پاکستان سے معنون کیا جانا اُن کی اِس لازوال محبت و احترام کا واضح ثبوت ہے۔

یہ عجب نفسیاتی معاملہ ہے کہ پاکستان سے قدم باہر رکھتے ہی سر زمینِ پاکستان اور پرچمِ پاکستان سے محبت بڑھ جاتی ہے ۔ کئی برس قبل راقم جب پہلی بار نیویارک پہنچا تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہُوا۔ راقم لاہور کے ایک انگریزی اخبار کی جانب سے امریکی صدر ، بل کلنٹن، کے صدارتی انتخاب کی کوریج کے لیے نیویارک پہنچا تھا۔ اپنا ایکریڈیشن کارڈ بنانے کے لیے مَیں نیویارک میں بروئے کار اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر پہنچا۔

یو این او کی یہ عالمی شہرت یافتہ پُر شکوہ عمارت کئی منزلہ ہے ۔ اِس کے سامنے یو این ممبرز ممالک کے پرچم لہرا لہرا کر ایک دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں ۔ تیز اور ٹھنڈی ہوا سے بچتا بچاتا مذکورہ عمارت کے سامنے پہنچا تو تا دیر مَیں اپنے وطن کا ہلالی پرچم تلاش کرتا رہا۔ درجنوں رنگ برنگے غیر ملکی پرچموں میں جب تک مجھے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم نظر نہ آگیا ، مَیں نے یو این بلڈنگ کے اندر قدم نہ رکھے۔

لیکن یہ کون بد بخت اور احسان فراموش ہیں جنھوں نے چند دن پہلے بیرونِ ملک پاکستان کے پرچم کی توہین بھی کی ہے اور پاکستان کا سبز پاسپورٹ بھی چاک کیا ہے ؟شومئی قسمت سے یہ دونوں حرکاتِ بد کرنے والے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے وابستگان ہیں ۔یہ سانحہ بلکہ دل آزار واقعہ برطانیہ کے شہر ''بریڈ فورڈ'' میں پیش آیا ہے۔

گزشتہ روز بریڈ فورڈ میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک کارکن نے پاکستانی قونصل جنرل کی عمارت پر لگا قومی پرچم اتار کر وہاں پی ٹی آئی کا جھنڈا لہرا دیا ۔ کیمرے میں اس بد بخت شخص کا چہرہ ہُڈ میں چھپا ہُوا ہے ۔سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا قومی پرچم اتارنے کے بعد وہ شخص پی ٹی آئی کا جھنڈا لگا رہا ہے۔ اووَر سیز پاکستانی اس اقدام کی شدید مذمت کررہے ہیں۔

وڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین نے اسے پاکستانیوں کے لیے تاریخ کا سیاہ دن قراردیا ہے۔ پاکستان کے ایک معروف ڈرامہ پروڈیوسر نے اِس سانحہ کی مذمت کرتے ہُوئے لکھا ہے: ''اِس معاملے کی تحقیقات کے بعد ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔پی ٹی آئی برطانیہ کے کارکن نے بریڈفورڈ میں پاکستانی قونصلیٹ میں قومی پرچم کی جگہ پارٹی جھنڈا لگا کر حد پارکر دی ہے''۔

ساجد نذیر تارڑ نے لکھا کہ'' بریڈ فورڈ میں پاکستانی قونصل جنرل کی عمارت میں پاکستانی پرچم کی جگہ اپنی کلٹ پارٹی کا جھنڈا لگانے والے گروہ کی اس بزدلانہ اور شرمناک حرکت کی مذمت کرتا ہوں''۔ایک اووَرسیز پاکستانی نے اپنی ٹویٹ میں کہا '' ہرگزرتے دن کے ساتھ یہ فرقہ( پی ٹی آئی) اپنی حدوں کو پار کررہا ہے۔ بریڈ فورڈ میں پاکستانی قونصل خانے میں پی ٹی آئی کے حامی نے قومی پرچم اتارکراس کی جگہ پارٹی پرچم لگا کر سخت توہین کا ارتکاب کیا ہے۔''

بریڈ فورڈ میں موجود ایک مقامی پاکستانی صحافی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے جس کارکن نے پاکستانی پرچم اُتارا تھا ، بعد ازاں وہی شخص پاکستان کا اُتارا گیا پرچم اپنی گاڑی میں رکھ کر وہاں سے فرار ہو گیا ۔

بریڈ فورڈ میں پاکستانی قومی پرچم کی بے حرمتی پر یقیناً پاکستان کے دشمن ہی خوش ہُوئے ہونگے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اِس سانحہ کی مذمت نہ تو پاکستان میں کسی پی ٹی آئی لیڈر نے کی ہے اور نہ ہی برطانیہ میں بروئے کار پی ٹی آئی لیڈر شپ نے ۔ ایک طرف تو بیرونِ ملک پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ورکر نے یہ غلیظ حرکت کی ہے اور دوسری جانب پاکستان میں قومی پرچم سے محبت کا ایک عجب منظر سامنے آیا ہے۔

خبر آئی کہ14اگست کے موقع پر حکمران طبقہ لاہور کے لبرٹی چوک میں ایک ایسا پاکستانی پرچم بلند آہنی ستون پر لہرانے جارہا ہے جس پر40کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں ۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' نے اپنے صفحہ اوّل پر یہ خبر شایع کی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ لاہور کے ایک دردمند شہری نے اِس فیصلے اور اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔

اب یہ کیس لاہور عدالت کے رُو برو ہے اور بجا طور پر فیصلہ سازوں سے استفسار کیا جارہا ہے کہ اِس شاہ خرچی ، اسراف کی بنیاد کیا ہے ؟عام پاکستانی کے لیے روٹی کا حصول مشکل بنا دیا گیا ہے ۔ ایسے میںچالیس کروڑ کا یہ مبینہ پرچم دراصل پاکستان کے جملہ پسے اور غریب طبقات کے سینے شق کرنے کی کوشش کے سوا کیا حقیقت رکھتا ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔