گلوبل وارمنگ
گلوبل وارمنگ کو آج کل کی بات سمجھاجاتاہے لیکن زمین کادرجہ حرارت بڑھنے کا یہ سلسلہ بہت قدیم زمانے سے چلاآرہاہے
چترال سے ایک گلیشئرکے ٹوٹنے یاہٹنے یا پگھلنے کی خبر آئی ہے جس کی وجہ سے علاقے بھر میں پانی بھرگیا ہے۔
گلیشئروں کے ٹوٹنے یاپگھلنے کایہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے چلنے لگاہے کیوں کہ ماہرین کے مطابق زمین کادرجہ حرارت مسلسل بڑھ رہاہے جس کے نتیجے میں لاکھوں سال سے پڑی ہوئی برف پگھلنے لگی۔
گزشتہ سال ہمالیہ کاایک گلیشئرٹوٹ کر گرا تو ماہرین نے کہاکہ یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ بڑھتارہے گا اورایک دن ایسا بھی آجائے گا جب برف وسیع پیمانے پر پگھل جائے گی تو سمندروں کی سطح اونچی ہوجائے گی اوربہت سارے ساحلی شہرڈوب جائیں گے۔
گلوبل وارمنگ کو آج کل کی بات سمجھاجاتاہے لیکن زمین کادرجہ حرارت بڑھنے کا یہ سلسلہ بہت قدیم زمانے سے چلاآرہاہے ، اس کاواضح پتہ اس وقت لگا جب آج سے دس بارہ ہزار سال پہلے اچانک وہ برفانی دور یا آئس ایج ختم ہوگیا جو لاکھوں سال سے جاری تھا۔
تقریباً بارہ ہزارسال پہلے برف کاآخری طوفان گزرا اوراس کے بعد وہ عظیم بارانی اورسیلابی دورشروع ہوا جس کاذکر پانچ اقوام کی اساطیر میں سیلاب عظیم یاطوفان عظیم کے ناموں سے آیا ہے۔
اس سیلاب عظیم کاسب سے پرانا ذکر دجلہ وفرات کے مشہورداستان گلگامش میں آیا جس میں ''اتناپشیتم'' نامی شخص گلگامش کو بتاتاہے کہ ایک دفعہ انسانوں سے دیوتا ناراض ہوگئے اوران پر سیلاب عظیم بھیج کرتباہ کرنے کا ارادہ کیا لیکن انسان دوست دیوتا آیاہ نے یہ خبر اپنے خاص بندے اتنا پشیتم کو دی اورایک کشنی بنانے اوراس میں انسانوں اورجانوروں کے جوڑے رکھنے کو کہا ، سیلاب کے گزرجانے پر ان کی کشتی کوہ ناسر پرٹک گئی تو پہلے کوا بھیجاجوواپس نہیں آیا، پھرکبوتر بھیجا ، یہودیت عیسائیت اور اسلام میں یہ کہانی معمولی فرق کے ساتھ حضرت نوح کی نسبت ''طوفان نوح'' کی شکل میں بیان کی گئی ہے۔
ہندی اساطیر میں اس کا مرکزی کردار ''منو مہاراج'' ہے ، منومہاراج (سورج دیوتا کا بیٹا) دریا کنارے گیا اس کے ہاتھ ایک مچھلی لگی ، مچھلی نے اس سے کہا اگر تم مجھے چھوڑدوتو میں تجھے ایک بہت کام کی خبر سناؤں گی۔
منو نے اسے چھوڑدیا تومچھلی نے کہا ایک زبردست طوفان آنے والاہے تم ایک کشتی بناؤ ، منو نے کشتی بنائی تو سیلاب عظیم آیا وہ مچھلی منو کی کشتی کو کھینچ کرہمالیہ پر لائی یہاں اس کے لیے ایک عورت پیداکی گئی یوں اس سے انسان''منوش''کی نسل چلی ۔
یونانی اساطیرمیں کشتی کے بجائے لکڑی کاصندوق ہے جب زیوس نے سیلاب کے ذریعے انسانوں کو تباہ کرناچاہاتو انسان دوست ٹیٹان پرومیتھس نے لکڑی کا ایک صندوق بناکر اس میں اپنے بیٹے ڈیو کانس اوربھتیجی ''پیرہ'' کو بٹھایا ،یہ صندوق کوہ پرناسس پر ٹھہرگیاتھا اوران دونوں سے انسانی نسل چلی۔
پانچویں کہانی ایرانی اساطیرمیں یامہ یا جمشید کی ہے لیکن اس میں برف کاطوفان ہے اورکشتی کی جگہ مٹی کااحاطہ ہے باقی انسانوں حیوانوں کے جوڑے اوربیج وغیرہ ویسے ہی ہے، یہاں ان پر بدی کے خدا اہرمن نے ان پر برف کاطوفان نازل کیاتھااورخدائے خیرآہورامزدا نے بچایاتھا۔
ان اساطیری کہانیوں کاذکر اس لیے ضروری تھا کہ باقی تو افسانے ہیں لیکن ''سیلاب عظیم'' ایک ایسی حقیقت ہے جو طبیعات کے شواہد سے بھی ثابت ہے اوریہ وہی سیلابی دورہے جو برفانی دوریاآئس ایج کے بعد شروع ہواتھا اورابھی تک چل رہاہے۔
اب بھی جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں یاگرمی زیادہ ہوتی ہے اوربرف زیادہ مقدار میں پگھل جاتی ہے تو نیچے میدانی علاقوں اوردریاؤں میں سیلاب آجاتے ہیں ۔کتاب کے مصنّفین کانام اس وقت میں بھول رہاہوں لیکن یہ دوانگریزی محققین نے انگریزی دورمیں لکھی ہے۔
عام ملتی ہے ، کتاب کانام ہے ''انڈس ویلی سوئیلائزیشن''کتاب میں اورباتوں کے علاوہ ایک فقرہ یہ بھی ہے کہ ایسا لگتاہے جیسے ہندوکش میں ایک بہت بڑا ڈیم رہاہو اورپھروہ اچانک ٹوٹ گیا ہواوریہ بات بالکل سچ ہے لیکن وہ ڈیم پانی کا نہیں بلکہ بے پناہ برف کاتھا جو لاکھوں سالوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اور پھر ''پروگرام''سے وہ کام لیاگیاجس کے لیے برف کاذخیرہ جمع کیا گیا تھا۔
اب یہاںپر اس ہستی کی بحث لازمی ہے جسے لوگ طرح طرح ناموں سے پکارتے ہیں طرح طرح کی شکلوں میں پوجتے ہیں عام طورپر آدھے ادھورے یاسنے سنائے ہوئے علم والے کہتے ہیں کہ سائنس دان یعنی طبیعات والے ''خدا''کو نہیں مانتے لیکن یہ غلط ہے۔
سائنس یاطبیعات میںصرف وہ چیز مانی جاتی ہے جو تجربات اورشواہد سے ثابت ہوجاتی ہے اورجو تجربات وشواہد سے ثابت نہیں ہے اس کاانکار بھی نہیں کیاجاتا چنانچہ حقیقی طبیعاتی علماء خداکو مانتے بھی نہیں لیکن اس کاانکار بھی نہیں کرتے۔ سوئیٹزرلینڈ میں ایک بہت بڑی مشین کے بارے میں سنا ہوگاجودنیا کی سب سے بڑی مشین ہے ، زمین کے اندر ستائیس کلومیٹر تک بنی ہوئی ساری دنیا کے ممالک کامشترکہ منصوبہ ہے۔
اس کے کچھ حصے پاکستان اسٹیل مل میں بھی تیارکیے گئے ہیں اورپاکستانی لوگ بھی اس میں شامل ہیں ،سادہ لفظوں میں کہیے تو یہ خدا کے وجود کو طبیعاتی طورپر ثابت کرنے کی کوشش ہے ۔ میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جاتا صرف یہ بتانامقصود ہے کہ کسی چیزکی ''تلاش''بجائے خود اس چیزکی موجودگی کاثبوت ہے۔
تلاش اس چیزکی کی جاتی ہے جس کی موجودگی کایقین ہو اگرکوئی چیز موجود نہیں یاہمیں یقین ہوکہ موجود نہیں تو اس کی تلاش کوئی کیوں کرے گا۔اب ہم آتے ہیں اس نظام کائنات کی طرف جس میں باقاعدہ ایک ذہانت بھرا انجینئرڈ اورخود کار نظام چل رہا ہے یا یوں کہیے کہ ایک باقاعدہ مرتب کیاہوا کمپیوٹرائزڈ پروگرام پرعمل ہورہاہے جو لاکھوں سالوں پر مشتمل برفانی دوریاآئس ایج گزراجس میں برف کاایک بہت بڑا ذخیرہ بالائی علاقوں میں جمع کیاگیاتھا۔
کوئی انٹ شنٹ اوربے ترتیب و بے مہار سلسلہ نہیں تھا بلکہ یہ صرف ایک خاص مقصد کے لیے جمع کی جاتی رہی اورجب وقت آیاتو گلوبل وارمنگ کے ذریعے برف گرنابند ہوئی اورپگھلنے لگی یادوسرے الفاظ میں ڈیم ٹوٹ گیا اور ایک عظیم سیلابی دورشروع ہوگیا۔
سیلاب جو بظاہر ایک تباہ کار چیزلگتی ہے یہ بھی اصل میں ایک تعمیری پروگرام تھا ، اونچے پہاڑی علاقوں سے ملبے لے جاکر نیچے پانی میں پھیلانا تھے،ہموارمیدانی زمینیں ابھارنا اورپیداکرنا تھیں۔
غورسے دیکھاجائے اور پھر سوچاجائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کس کمال کاخودکار اورانجینئرڈ پروگرام تھا، زیادہ قدیم زمانے میں نہیں جائیں گے صرف کرہ ارض پر جو کچھ بیتی ہے اس کی بات کریں گے ۔
کوئی پانچ چھ ارب سال پہلے جب ہمارا یہ نظام شمسی بنا اور زمین سورج سے الگ ہوئی تھی تو آگ کاایک گولہ تھی پھر آہستہ آہستہ اس موسمی اور طبعی عوامل سے تبدیلیاں ہوتی رہیں، اوپر کا حصہ سرد ہوتا رہا، عناصر پیداہوتے رہے ، آخر کار چالیس کروڑسال پہلے ایک عظیم الشان زلزلے نے ہی بہت ساری تبدیلیاں پیداکیں۔
لگ بھگ ستاون کروڑ سال پہلے زمین پرپہلی زندہ مخلوق پیداہوئی جو سنگل سیل یعنی یک خلوی تھی ۔یہ یک خلوی مخلوق جو پانی نماکیچڑ یاکیچڑ نماپانی میں پیداہوئی اس کے بارے میں ابھی تک حتمی طورنہیں کہاجاسکتاکہ بے جان مادے میں جان کیسے پڑی۔ سورج سے الگ ہونے کے بعد اس زمین پر جو تقریباًساڑھے تین ارب کازمانہ گزرا تھا وہ یکسر زندگی یاحیات سے خالی موسمی اورطبعی تبدیلیوں کا زمانہ تھا ،اس وقت زمین پر پانی ہی پانی تھا جب یہ مخلوق پیداہوئی، کہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خشکی کے ابھررہے تھے۔
اس نفس واحدہ کے بارے میں کچھ علما نے کہا ہے کہ آسمانی بجلیوں سے پانی میں موجود عناصر نے کوئی ایسا چارج لیا کہ ان میں زندگی کی نمودہوئی لیکن کچھ علما کانظریہ ہے ، پانی میں مسلسل حرکت سے یہ حرکت ان عناصرمیں منتقل ہوئی۔ اس وسیع وعریض اورلامتناہی کائنات کے مقابل انسان اوراس کادماغ اورعلم کچھ نہیں ہے انسان کی عمر، ہستی اورپہنچ اس کائنات کے مقابل ایسی ہے جیسے قطرہ کے مقابل سمندر، ذرے کے مقابل صحرا اورجنگل کے مقابل ایک کیڑے کی ہو۔