پاک بھارت تعلقات کا مستقبل
پڑوسی ملک میں چونکہ جمہوریت زور پکڑ کر ایک تناور درخت بن چکی ہے، اس لیے وہاں میڈیا مکمل طور سے آزاد ہے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اُس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ کسی وقت بھی کھیل کا پانسہ پلٹ سکتی ہے۔
یہ جیتتے جیتتے ہار سکتی ہے اور ہارتے ہارتے جیت سکتی ہے۔پاکستان کی سیاست پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جب آپ رات کو سوئیں اور صبح کو جاگیں تو کچھ کا کچھ ہوچکا ہو۔ ایسا ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے اور اگر مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوجائے تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔
کچھ عرصہ پہلے یہ کہا جارہا تھا کہ عام انتخابات اپنی آئینی مدت کے مطابق منعقد ہوں گے لیکن تازہ ترین صورتحال کے مطابق یہ کہنا مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ آیندہ کی صورتحال کیا ہوگی۔
انتخابات کب اورکس طرح ہوں گے یا پھر ہوں گے ہی نہیں۔ بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی نجومی کوئی پیش گوئی کرنے سے گھبرا رہے ہیں لیکن ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ہمارے پیر و مرشد مرزا اسد اللہ خان غالب کے فرمائے ہوئے کے عین مطابق ہے۔ اِسی لیے ہم کسی شش و پنج میں نہ پڑنے سے قطعی محفوظ اور مطمئن ہیں۔ ہمارے پیر و مرشد نے فرمایا ہے:
رات دن گردش میں ہے سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
وطنِ عزیز کی بات ہی کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ یہاں کسی وقت بھی کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے، لہٰذا ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ اپنی نظریں پردے پر مرکوز رکھیں اور اطمینان سے بیٹھے رہیں اور انتظار فرمائیں۔یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ الیکشن جب بھی ہوں یا کبھی بھی نہ ہوں اِس سے کیا فرق پڑے گا۔ ہونا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے بس آرام سے بیٹھے رہیے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
اب آئیے پڑوسی ملک کی طرف جہاں حسبِ روایت عام انتخابات کا نہ صرف اعلان کر دیا گیا ہے بلکہ الیکشن شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق آیندہ عام انتخابات آیندہ سال یقیناً 2024 میں ہوں گے۔
سب سے دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ وہاں میڈیا میں عام چناؤ کے بارے میں بحث و مباحث شروع ہوگئے ہیں۔ اِس سے قبل یہ کہا جائے تو ہمارا جمہوریت کا پودا گملوں میں اُگا ہوا ہے، اس لیے کمزور ہے اور پنپ نہیں سکا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ ہماری بات سمجھ گئے ہوں گے کیونکہ سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ شاعر کا کہا ہوا یہ شعر سن لیجیے:
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستانِ غم کہیں
ادا، ادا سے تم کہو نظر، نظر سے ہم کہیں
پڑوسی ملک میں چونکہ جمہوریت زور پکڑ کر ایک تناور درخت بن چکی ہے، اس لیے وہاں میڈیا مکمل طور سے آزاد ہے اور ہر شہری کو جمہوری روایت کا احترام کرنا آتا ہے اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اظہارِ خیال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
حالات اور معاملات سے باخبر رہنے کے لیے ہم بھارت کی خبریں اور تبصرے سنتے رہتے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہمیں ایک تبصرہ سننے کا موقع ملا جس میں بھارت کے سینئر اور ثقہ مبصر کَرن ٹھاپر اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اُن کا مرکزی موضوع تھا آیندہ انتخابات میں بھارت کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے حصہ لینے کے امکانات اور ممکنہ نتائج کا تجزیہ کرنا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکمراں جماعت میں ابھی بھی کافی دَم خَم ہے اور بھارت کے دو صوبوں گجرات اور اُتر پردیش میں اُس کی مقبولیت تقریباً جوں کی توں ہے اور مدھیہ پردیش میں بھی اُس کا اچھا خاصہ ہولڈ ہے۔
اندازہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی اتحاد سے ٹکر لے سکتی ہے اور آیندہ بھی بر سرِ اقتدار آسکتی ہے لیکن الیکشن، الیکشن ہیں اور یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
رہی بھارتی مسلمانوں کی بات جن کا کسی زمانہ میں خاصہ بڑا ووٹ بینک تھا خصوصاً کانگریس پارٹی کے حوالہ سے۔ اگرچہ کانگریس ابھی بھی کافی بڑا نام ہے لیکن اُس کے غبارہ سے ہوا نکل چکی ہے۔
اب آتی ہے علاقائی جماعتوں کی باری۔ جہاں تک ممتا بنر جی کی ترینی مُول پارٹی کا تعلق ہے تو اُس کا بنگال میں بہت بڑا ہولڈ ہے اور یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں اتنی سکت نہیں کہ اُس کا بال بِیکا کرسکے لیکن ملکی سطح پر اُس کی پوزیشن نسبتاً کمزور ہے۔
بھارتی کمیونسٹ پارٹی کے امکانات بھی دھندلے ہیں۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مختلف شعبوں میں شخصی مقبولیت کی بِنا پر کسی بھی سیاسی جماعت کو فتح حاصل ہوسکتی ہے۔
مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی جانب سے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔سوال یہ ہے کہ مستقبل میں پاک بھارت تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں تو اِس کا انحصار اِس بات پر ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کون کونسی سیاسی جماعتیں برسرِ اقتدار آتی ہیں؟