بے بس حکمران اور مظلوم عوام
عوام کی توقعات تو صرف اتنی ہوتی ہیں ان کی روز مرہ کی زندگی گزارنے کے اسباب کی قیمتوں میں استحکام رہے
کسی ملک کو چلانے کے لیے انتہائی دانش اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک چلانے میںہماری ہر حکمت عملی دانشمندی سے عاری نظر آتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پاکستان ہر دوست ملک سے ادھار مانگ رہا ہے۔
ایک چھوٹا سا گھر بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں چل سکتا کجا کہ ایک ایسا ملک جو ایٹمی طاقت بھی ہو، دشمنوں میں گھرا ہو اپاکستان ایک دن بھی کسی منصوبے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ پاکستان کو چلانے اور اسے زندہ رکھنے کے لیے حقیقتاً معاشی محاذ پر جہاد کی ضرورت ہے جو نہ صرف اسے دشمنوں سے بچائے بلکہ آگے بھی لے جائے۔
بدعنوانی اور کرپشن نے جس طرح پاکستان میں پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور جس کا اس کے بڑے بیک زبان ہو کر یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں کرپشن اور بدعنوانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس ہمہ گیر کرپشن پر ہاتھ ڈالیں تو ملک چلانے والا کوئی باقی نہ رہے۔
پاکستان کا میڈیا اپنے قارئین اور ناظرین کو اس کرپشن کے متعلق مسلسل آگاہ کرتا رہتا ہے لیکن اس کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کو کوئی تیار نہیں ہے کیونکہ وہ طاقتیں جن کے پاس اختیار ہوتا ہے جنھوں نے اس ناسور کا قلع قمع کرنا ہے اگر وہی طاقتیں اس کرپشن سے مستفید ہوتی ہیں تو پھر اس ناسور کا خاتمہ کیسے ممکن ہو۔
ہماری اشرافیہ کی پالیسیوں نے ملک کو وہاں لا کھڑا کیا ہے جو ہمارے دشمنوں کا مطلوب تھا اور اب ہم نے نہ صرف اس وسیع ترکرپشن کے سامنے علانیہ ہتھیار ڈال دیے ہیں بلکہ ان طاقتوں کے سامنے بھی سرنڈر کردیا ہے جو اس وقت پاکستان کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق چلا رہے ہیں۔
دگرگوں معاشی حالات جن میں آئے روز شدت آرہی ہے انھی مشکل ترین حالات میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی عمل میں آچکی ہے، جناب شہباز شریف سولہ ماہ کی حکومت کے بعد رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے پیچھے عوام کے لیے کوئی خوشگوار یادیں چھوڑ کر نہیں گئے کیونکہ ان کے سولہ ماہی اقتدار میں عوام پر زندگی انتہائی تنگ رہی ہے لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ ملک کی معاشی حالت پر انھوں نے سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنی سیاست کو ریاست پر قربان کر دیا ہے۔
اگر الیکشن ہو گئے تو اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ جناب شہباز شریف کی ریاست بچانے کی حکمت عملی کہاں تک کامیاب رہی اور اس حکمت عملی سے ان کی سیاست بچ گئی ہے یا وہ مہنگائی کے سمندر میں بہہ گئے ہیں، سردست تو یوں لگتا ہے کہ الیکشن کا معاملہ ''ہنوز دلی دور است ''والا ہے ۔
نگران وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ نے یوم آزادی کے روز حلف اٹھا لیا ہے ۔ سنا ہے کہ وہ بڑے کھلے ڈلے شخص ہیں اور بلا کم وکاست اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔
پاکستان کے عوام کی نظریں ان پر مرکوز ہیں کہ مقررہ آئینی مدت میں وہ اپنی پٹاری سے عوام کے لیے کیا برآمد کرتے ہیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اور پاکستانی عوام بھی امید وبیہم کا شکار ہیں، یہ وہ معصوم عوام ہیں جو ہر حکمران، چاہے وہ پنج سالہ ہو یا کم مدت والا اس سے اپنی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آج تک کوئی بھی حکمران عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترا ہے۔
عوام کی توقعات تو صرف اتنی ہوتی ہیں ان کی روز مرہ کی زندگی گزارنے کے اسباب کی قیمتوں میں استحکام رہے اور وہ اپنی آمدن کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔لیکن ہوتا یوں ہے کہ حکومت اپنی کمائی کا سب سے آسان ذریعہ انھی عوام کو بنا لیتی ہے اور اور ان کی روز مرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکسوں کی اس قدر بھر مار کر دی جاتی ہے جس سے حکومت کا خزانہ تو بھر جاتا ہے لیکن عوام کی جیب خالی ہو جاتی ہے اور وہ حکومت کو کوسنے لگ جاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برس میں ہم نے دوحکومتوں کو بھگتا لیا ہے اور یہ دونوں حکومتیں ملک کی معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈالتی رہیں ہیں۔
اس وقت پاکستان سے بدعنوانی اور کرپشن کو ختم کرنے کے لیے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور یہ بڑے فیصلے نام نہاد بڑے لوگوں کے خلاف ہونے چاہئیں لیکن یہ فیصلے کون کرے گا کیونکہ اس میں تما م شرفاء کے نام آتے ہیں اور یہ سب آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہے اور جب بھی ان کے مفاد پر زد پڑتی ہے تو یہ یک زبان بلکہ یک جان ہو کر اس کے مقابلے پر اتر آتے ہیں اوراگر کوئی نیک نیت حکمران اس ضمن میں کوئی فیصلہ کرنا بھی چاہے تو وہ بے بس ہو جاتا ہے اور جب ایک حکمران کسی معاملے میں بے بس ہو جائے وہ قوم کے لیے نہایت مایوسی کا لمحہ ہوتا ہے اور اس طرح قومیں بکھر کر گروہوں میں بٹ جاتی ہیں۔قوم کو مایوسی میں دھکیلنے کے بجائے اس وقت ضرورت ہے کہ قوم کی ہمت بڑھائی جائے۔