پاک روس تعلقات کے نشیب و فراز آخری حصہ
ماضی کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات جمہوری ادوار میں نسبتاً زیادہ تیزی سے بہتر ہوئے ہیں
جنرل ایوب خان کی حکومت کے آخری برسوں میں جمہوریت کی بحالی اور ملک میں پہلے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے چلنے والی جمہوری تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی، جس کے بعد جنرل ایوب خان کو اقتدار سے دست بردار ہونا پڑا، دوسرے فوجی آمر یحییٰ خان نے 1970 میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے جس میں عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔
جنرل یحیٰی خان کی جانب سے عوام کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا گیا جس سے جو شدید سیاسی بحران پیدا ہوا، وہ 1971 کی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس جنگ میں سوویت یونین نے ہندوستان کی کھل کر سیاسی، سفارتی، مالی حمایت کی اور بحر ہند میں اپنے تباہ کن بحری جہاز اور آب دوزیں بھیج دیں۔
پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے جو تاریخی کردار ادا کیا تھا، اس سے بھی سوویت یونین کی ناراضی میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پاک سوویت تعلقات بہتر بنانے کے ضمن میں اہم پیش رفت ہوئی۔ بھٹو صاحب یہ جانتے تھے کہ بنیادی صنعتیں لگائے بغیر ملک کو صنعت یافتہ بنانا ممکن نہیں ہو گا۔
انھیں یہ بھی علم تھا کہ سوویت مدد کے بغیر یہ کام ممکن نہیں ہوگا، لہٰذا ان کے دور حکومت میں سوویت حکومت کی مدد سے ملک میں پہلی اسٹیل مل کا قیام عمل میں آیا۔
سوویت یونین نے تھرمل توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کی اور گیس کی تلاش اور ترقی کے لیے او جی ڈی سی کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے تھے لیکن افغانستان میں روسی مداخلت کے نتیجے میں پورے خطے کی سیاست یکسر بدل گئی۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب جنرل ضیا الحق ملک کے پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر چکے تھے۔
انھوں جنرل ایوب خان سے میلوں آگے نکل کر ملک کو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا دیا۔ یہ پاک سوویت تعلقات کی تاریخ کا سب سے بد ترین دور تھا۔ اس فیصلے کے جو سیاسی، معاشرتی، سماجی نتائج برآمد ہوئے اس سے پاکستان آج تک نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔
افغانستان سے سوویت انخلا اور سوویت ریاست کے انہدام اور بعد ازاں، اقتدار میں آنے والی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی کمزور سویلین حکومتوں نے پاک سوویت تعلقات کو بہتر بنانے کی متعدد کوششیں کیں۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں روس کی طرف سے پر امن توانائی کے لیے ایٹمی ری ایکٹر بنانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے باعث تعلقات بہت کشیدہ ہو چکے تھے۔ نواز شریف کی حکومت نے بھی اس ضمن میں پیش قدمی کی کوشش کی۔ نواز شریف نے 1999 میں روس کا سرکاری دورہ کیا جو 25 سال بعد کسی پاکستانی سربراہ حکومت کا پہلا دورہ تھا۔
اس وقت روس کے صدر بورس یلسن تھے۔ دونوں رہنماؤں نے سرد جنگ کی تلخ یادوں کو فراموش کر کے آگے بڑھنے کا عزم کیا۔ امید کی جا رہی تھی کہ دونوں ممالک 21 ویں صدی میں خوشگوار رشتوں کا نیا دور شروع کرنے والے ہیں لیکن یہ امید بھی تشنہ ہی رہی۔
نواز شریف کی جمہوری حکومت کے خلاف ایک فوجی انقلاب برپا ہوا اور جنرل پرویز مشرف اقتدار پر قابض ہو گئے۔ سرد جنگ ختم ہو چکی تھی لیکن نائن الیون کے باعث ان کی اہمیت اور ضرورت دونوں بہت بڑھ چکی تھی جس کا انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔
تاہم، اس بار چونکہ روس سے مفادات کا براہ راست کوئی ٹکراؤ نہیں تھا، اس لیے جنرل مشرف نے روس مخالف پالیسی اختیار نہیں کی۔ ان کیا اقتدار کے آخری دنوں میں روس کے وزیراعظم نے پاکستان کا اہم دورہ کیا اور صدر مشرف سے مذاکرات کیے۔
جنرل مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد 2008 میں عام انتخابات ہوئے، آصف علی زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالا اور پارلیمنٹ نے یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم منتخب کر لیا۔ جمہوری حکومت کے آنے کے بعد روس نے اپنی پالیسی میں مزید لچک پیدا کی۔
یہ صدر آصف زرداری کی بیک ڈور ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا کہ 2011 میں روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کی بھرپور تائید کی۔ روس کی جانب سے پاکستان اسٹیل مل کو جدید بنانے اور گنجائش میں اضافے کی پیش کش کے علاوہ گدو اور مظفر گڑھ بجلی گھروں کی جدت کاری کے لیے فنی تعاون پر آمادگی ظاہر کی گئی۔
دوطرفہ تعلقات میں اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب 2011 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ولا دیمیر پیوتن کے درمیان خوش گوار ملاقات ہوئی۔ 2013 میں نواز شریف کی حکومت بر سر اقتدار آئی۔ ان کے دور حکومت میں بھی دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا عمل جاری رہا۔ 2017 میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اور اجلاس میں صدر پیوتن اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات ہوئی۔
نواز حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان اقتدار میں آئے، انھوں نے بھی ماسکو کا دورہ کیا اور صدر پیوتن سے مذاکرات کیے۔ یہ 20 سال کے بعد پاکستان کے کسی وزیراعظم کا، روس کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ عمران حکومت کے بعد، پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے سربراہ میاں شہباز شریف نے بھی 2022 میں مذکورہ بالا تنظیم کے اجلاس میں روسی صدر سے ملاقات کر کے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔
اس بات سے کم لوگ آگاہ ہوں گے کہ روس اور پاکستان کے درمیان مناسب فوجی تعلقات بھی قائم ہیں۔ دونوں ملک مشترکہ مشقیں کر چکے ہیں اور اعلیٰ سطح فوجی روابط بھی قائم رہتے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف ماسکو کے دورے کر چکے ہیں۔
حالیہ دنوں میں دو طرفہ تجارتی اور سیاسی تعلقات تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔ پچھتر برسوں پر محیط پاک۔ روس تعلقات کے اس مختصر جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تمام تر مسائل، دباؤ اور مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کو اس حد تک خراب نہیں ہونے دیا جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو سکے۔
ماضی کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات جمہوری ادوار میں نسبتاً زیادہ تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔ روس نے پاکستان سے معاشی رشتے قائم کرنے بہ طور خاص تیل، گیس اور توانائی کے دیگر شعبوں کو ترقی دینے کی غیر مشروط پیش کش کی ہے۔
تاہم، یہ سوال ذہن کو ضرور پریشان کرتا ہے کہ 75 برسوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات مستقل طور پر غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار کیوں رہے اور وہ پائیدار دوستی قائم کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے؟ جب تک اس سوال کا جواب تلاش نہیں کیا جاتا، اس وقت تک مستقبل کے حوالے سے پاک روس تعلقات کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔