ڈکیتیوں اور مزاحمتی قتل کا شرمناک ریکارڈ
ہائی کورٹ نے پبلک سیفٹی کمیشن کے انعقاد کو ہر ماہ لازمی قرار دے دیا ہے
سابق وزیر اعلیٰ سندھ نے اس امر پر فخرکا اظہارکیا ہے کہ امن کے لیے سندھ حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں سندھ دہشت گردی سے محفوظ ہے اور صوبے میں انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹڈ آپریشن کیے گئے ۔
ادارے الرٹ اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی روابط ہیں۔ یہ اعتراف بھی کیا جانا چاہیے کہ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی جو سندھ کا دارالحکومت ہے وہاںصوبائی حکومت ڈکیتوں اور ڈاکوؤں کے خلاف مزاحمت میں قتل ہونے والے سات درجن بے گناہ شہریوں کی حفاظت میں مکمل ناکام رہی ہے۔
ایک عدالتی خبر کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے اپنے ایک حکم کے تحت پولیس معاملات میں وزیر اعلیٰ کے اختیارات کم کرکے آئی جی پولیس کو مزید بااختیار بنا دیا ہے اور سندھ کا آئی جی پولیس اپنی مقررہ مدت پوری کرے گا اور وہ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مشاورتی اجلاس میں شرکت کا پابند نہیں ہوگا جس کا 3 سال سے قبل تبادلہ نہیں کیا جاسکے گا۔
ہائی کورٹ نے پبلک سیفٹی کمیشن کے انعقاد کو ہر ماہ لازمی قرار دے دیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سول سوسائٹی کی درخواست پر دیا ہے تاکہ محکمہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھا جاسکے۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس بات کو بدقسمتی قرار دیا گیا ہے کہ بیورو کریسی اپنے مفادات کے لیے سیاست کا حصہ بن جاتی ہے۔ عدالتی حکم میں ڈی آئی جیزکے تقرر کے لیے وزیر اعلیٰ کی منظوری اب ضروری نہیں ہوگی۔ عدالت نے پولیس آرڈر کے سیکشن (1)15 کو ختم کردیا ہے، البتہ سندھ پولیس میں کسی ماہر کا تقررکیا جاسکے گا مگر اسے آئی جی سمیت پولیس معاملات میں مداخلت نہیں بلکہ صرف پولیس کی معاونت کرے گا۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کو ہر صوبے کی صوبائی حکومت کے لیے طلب کیے گئے آئی جی پولیس کے تقررکا پابند کیا گیا ہے اور سندھ میں 15 سالوں سے کسی آئی جی کو 3 سالہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور آئی جی پولیس نے وزیر اعلیٰ کی بات نہیں مانی، اس کا وفاق سے تبادلہ کرا دیا گیا جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اپنی مخالف سندھ حکومت میں اپنا آئی جی تعینات نہیں کرا سکی اور جو آئی جی سندھ حکومت کو پسند نہ تھا اس کا تبادلہ کرا دیا جاتا تھا اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنا پسندیدہ آئی جی کسی صوبے میں مقرر کر سکتی ہے نہ امن و امان کے معاملے میں کسی صوبائی حکومت کے خلاف ایکشن لے سکتی ہے نہ بدامنی پر کسی بھی آئی جی پولیس کو تبدیل کرسکتی ہے کیونکہ ہر صوبے میں امن وامان برقرار رکھنے کی ذمے داری متعلقہ صوبائی حکومت کی ہے جو مکمل با اختیار ہے۔
سندھ اور پنجاب کے سرحدی اضلاع کشمور، گھوٹکی اور رحیم یار خان کے کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج قائم ہے جہاں ڈاکو دونوں صوبوں کے لوگوں کو مختلف طریقوں سے اپنے پاس بلا کر اغوا کر لیتے ہیں اور ان میں اب اتنی جرأت آ چکی ہے کہ وہ پولیس، ایف سی اور دیگر سرکاری ملازموں کو اغوا کر چکے ہیں اور ان پر تشدد کر کے کروڑوں روپے تاوان وصول کر چکے ہیں اور وہ وارداتوں میں جدید سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں اور عوام حیران ہے کہ ڈاکوؤں کے ٹھکانوں میں انھیں نیٹ کی سہولت بھی حاصل ہے اور وہ اغوا کیے جانے والوں پر اپنے بہیمانہ تشدد کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔
اغوا برائے تاوان کے لیے پنجاب و سندھ کے دو دو اضلاع راجن پور، رحیم یار خان،گھوٹکی اورکشمور میں یہ کاروبار برسوں سے جاری ہے اور چاروں اضلاع میں پولیس کے آپریشن بھی چل رہے ہیں جن میں ہمیشہ ڈاکوؤں کا پلہ ہی بھاری رہا اور ان کے مقابلے میں پولیس کا جانی نقصان زیادہ ہوا ہے۔
کراچی میں دن دہاڑے ڈکیتیاں عام ہیں جو کئی سالوں سے جاری ہیں اور رواں سال میں سات درجن بے گناہ افراد دن دہاڑے ڈاکوؤں سے مزاحمت پر قتل کیے جا چکے ہیں اور سندھ پولیس میں شاید اب ایسے پولیس افسران موجود نہیں جو کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور سرعام ڈاکے مارنے والے ڈاکوؤں کو گرفت میں لا سکیں۔ لگتا ہے کہ سندھ حکومت بھی اس سلسلے میں سنجیدہ نہیں یا وہ خود نہیں چاہتی کہ کراچی کے لوگوں کو دن دہاڑے کھلے عام لٹنے سے بچا سکے۔
دن دہاڑے لوٹے جانے والوں میں اب مرد ہی نہیں خواتین بھی شامل ہیں۔ کراچی میں لوگ اہم شاہراہوں کے علاوہ اپنے علاقوں بلکہ اپنے گھروں کے باہر بھی لوٹے جا رہے ہیں اور مزاحمت پر ایک سو سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
کراچی میں پولیس سے مایوس ہو کر اب لوگوں نے خود ڈاکوؤں کو پکڑنا، مارنا اور ان پر تشدد شروع کردیا ہے جس کے نتیجے میں بعض ڈاکو مارے اور شہریوں کی مزاحمت کے نتیجے میں پکڑے جا چکے ہیں اور شہری پکڑے جانے والے ڈاکوؤں پر غصہ نکالتے ہیں جنھیں بچانے کے لیے پولیس پہنچ جاتی ہے اور مشتعل شہریوں کے ہاتھوں متعدد ڈاکو تشدد سے مارے بھی جا چکے ہیں۔
سات درجن شہریوں کی مزاحمت پر ہلاکتوں کے مقابلے میں ڈاکوؤں سے مقابلے میں پولیس کا جانی نقصان کم ہوا ہے اور بہت کم ہی پولیس اہلکار بہادری سے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کراچی میں ڈاکوؤں کے حوصلے بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ جان کے خوف سے شہری بھی لٹ جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہزاروں افراد اپنے لٹنے کی پولیس کو اطلاع بھی نہیں دیتے اور صبر کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ جانی نقصان پر ہی ڈکیتی کی خبریں میڈیا پر آتی ہیں یا کبھی کبھی پولیس اور ڈاکوؤں میں مقابلہ ہو تو خبریں ظاہر ہوتی ہیں۔ رواں سال ڈکیتیوں میں 83 شہریوں کی ہلاکت سندھ حکومت کے لیے شرمناک ہے مگر سندھ حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کر رہی اور پولیس بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔