ظلم پھر ظلم ہے
تمام الزامات اور اپنی اپنی ذمے داریوں سے دامن چھڑانے کے باوجود ہر دانشمند کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی ۔۔۔۔
حضرت علیؓ کا قول زریں ہے کہ ''کفر پر معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم و ناانصافی پر نہیں''۔ وہ معاشرہ جہاں یکساں اور بروقت انصاف تمام افراد معاشرہ کی دسترس میں نہ ہو، جس معاشرے میں قوانین پر عملدرآمد نہ ہو رہا ہو وہاں تمام معاشرتی برائیاں نہ صرف جنم لیتی ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اس حد کو چھو لیتی ہیں کہ پورا معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی سماج میں دہشت گردی، انتہا پسندی، جھوٹ، مکر و فریب اور لوٹ مار عروج پر ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں انصاف سب کے لیے اور بر وقت ہوتا ہے یہ نہیں کہ وہاں کوئی برائی ہوتی ہی نہیں مگر مجموعی طور پر معاشرہ تباہی سے ہمکنار نہیں ہوتا۔
امریکا کینیڈا یا یورپی ممالک نہیں آپ متحد عرب امارات ہی میں دیکھ لیجیے کہ ہمارے پاکستانی بھائی جو کراچی یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں ٹریفک سگنلز کو خاطر میں نہیں لاتے وہاں وہ کسی ٹریفک قانون کو توڑنے کی ہمت نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ وہ مقررہ سزا یا جرمانے سے بچ نہیں سکتے وہاں قوانین صرف بنائے نہیں جاتے بلکہ ان پر سختی سے عمل بھی کیا جاتا ہے اور یہ عملدرآمد قانون نافذ کرنے والے ہی کرواتے ہیں کوئی ان کی مٹھی گرم کر کے جان نہیں چھڑا سکتا۔ ہمارے یہاں قوانین تو موجود ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ پھر قانون بھی امیر و غریب ،حکمراں اور عوام کے لیے مختلف ہو جاتا ہے۔
ہمارے ملک کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ہر ادارہ اپنی ذمے داری کو بجا طور پر انجام دینے سے قاصر ہے ہر روز ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں ادارے میں کروڑوں کی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے یہ بدعنوانی اداروں ہی میں نہیں بلکہ ہر فرد کی رگ و پے میں گردش کر رہی ہے۔ مگر کیا اس صورتحال میں قانون کی گرفت سخت نہ ہونا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اپنے فرائض سے غفلت کا دخل نہیں ہے؟ ایم کیو ایم نے اپنے چار کارکنان کے ماورائے عدالت قتل کا ذمے دار رینجرز اہلکاروں کو قرار دیا ہے۔
اس موقف پر رینجرز کے ترجمان نے کہا ہے کہ ''رینجرز نے رابطہ کمیٹی کے الزامات کو سنجیدگی سے لیا ہے اور یہ کہ رینجرز کی وردی میں ملبوس غیر قانونی کام کرنے والوں سے انتہائی سختی سے نمٹا جائے گا'' اس بیان کی روشنی میں یہ بات تو یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ رینجرز یا دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر ان ماورائے عدالت قتل میں ملوث نہیں بھی ہیں تو ان کے ہوتے ہوئے کوئی ان کی وردی میں یا سادہ لباس میں اس وحشت و بربریت کا مرتکب کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟ کیا یہ قانون نافذ کرنے والوں کی ذمے داری نہیں کہ شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کریں بلکہ انھیں ہر خوف و دہشت سے ریلیف مہیا کریں؟
وزیر اعلیٰ (سندھ) نے ایم کیو ایم کے سوگ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ''متحدہ ہماری اتحادی جماعت ہے کارکنان کی ہلاکت یا گمشدگی پر ہمیں اعتماد میں لیتی ہم ان کے تمام تحفظات دور کرتے چہ خوب ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ سے ان نوجوانوں کو اٹھائے جانے کی سارے شہر کو اطلاع تھی صرف وزیر اعلیٰ صاحب ہی لاعلم تھے۔ سندھ میں بسنے والے دوسری سیاسی جماعتوں یا غیر سیاسی افراد کے وزیر اعلیٰ نہیں؟ آپ کا کام یا ذمے داری تو سب کی فلاح و بہبود اور سب کے مسائل حل کرنا ہے آپ کے ہوتے ہوئے یہ سب کیوں اور کیسے ممکن ہو رہا ہے؟ ایم کیو ایم کو عام انتخابات کے بعد سے مسلسل حکومت میں شامل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی، ان کوششوں میں رحمان ملک پیش پیش تھے۔
ان چار نوجوانوں کو اٹھانے اور قتل کرنے سے پہلے بھی متحدہ کے کئی ہمدرد اور ورکرز کو قتل کیا جا چکا ہے اور کئی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ لہٰذا ایم کیو ایم نے نہ جانے کیا سوچ کر (شاید اپنے لوگوں کی جان بخشی کو مدنظر رکھ کر) حکومت میں شامل ہونا بادل ناخواستہ گوارا کیا یہ میں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ محض دو وزارتوں کے لیے تو انھوں نے یہ قدم نہیں اٹھایا ہو گا مگر اگلے ہی روز ان کو کئی لاشوں کا تحفہ دیا گیا اور ابھی اس اتحاد کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں کہ پھر یہ بربریت منظر عام پر آ گئی۔ ادھر وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر رابطہ کمیٹی نے جوابی بیان دیا کہ ''اصولاً تو وزیر اعلیٰ کو ہمارے پاس تعزیت کے لیے آنا چاہیے تھا اس کے بجائے وہ ہمارے سوگ کو افسوسناک قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں''۔ اس بیان اور جوابی بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر شہری کے ذہن میں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ یہ کیسا اتحاد ہے؟ اور یہ کتنے دن جاری رہے گا؟ ماضی میں بھی اتحاد ہوتا اور ٹوٹتا رہا ہے۔
تمام الزامات اور اپنی اپنی ذمے داریوں سے دامن چھڑانے کے باوجود ہر دانشمند کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو درست کرنے کے لیے جو ٹارگٹڈ آپریشن کئی ماہ سے جاری ہے جس کے نگران اعلیٰ بھی خود وزیر اعلیٰ سندھ ہیں۔ اخبارات میں ہر روز اس آپریشن کی شاندار کامیابی کی خبریں آتی ہیں کہ رینجرز یا پولیس کی کارروائی میں (سو پچاس سے تو کبھی کم نہیں ہوتے) اتنے دہشت گرد، اغوا برائے تاوان، لوٹ مار کرنے والے اور درجنوں قتل کے ملزم گرفتار کیے گئے۔ اگر صرف ایک دو ہفتے کے اخبارات اٹھا کر ان گرفتارشدگان کی تعداد شمار کی جائے تو سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ہوں گے۔
یہ الگ بات ہے کہ ملزم پکڑے جانے کی خبر تو آتی ہے اور دس پانچ کی تصویر بھی اس اہتمام سے اخبارات کی زینت بنتی ہے کہ تمام ملزمان کے چہرے چادر یا نقاب سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں پھر ان کا کیا انجام ہوتا ہے یہ آج تک معلوم نہ ہو سکا۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ یہ ملزم بھی کرائے کے ہوتے ہیں جن کو نقاب پہنا کر نہ صرف تصویر بنوانے کی اجرت ادا کی جاتی ہے اور فوٹو سیشن کے بعد دوسرے کمرے میں لباس تبدیل کروا کے بحفاظت تھانے سے ان کی خدمات کا صلہ اور آنے جانے کا کرایہ ادا کر کے نکال دیا جاتا ہے۔ پھر ہفتہ دس دن بعد ان کی خدمات حاصل کر کے انعامات اور اسناد (اپنے کارنامے) حاصل کر لی جاتی ہیں۔ جو کارروائی ذرایع ابلاغ میں دکھائی جاتی ہے وہ واقعی ہوتی تو اب تک تو تمام دہشت گرد اور قاتل کیفر کردار تک پہنچ چکے ہوتے اور شہر قائد ایک بار پھر سے روشنیوں کا بارونق اور پرامن شہر بن چکا ہوتا مگر ایسا نہ ہونا شبہات کو تقویت دیتا ہے۔
اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھ کر کڑی تنقید کرنے کے بجائے ارباب اختیار کی ذمے داری نہیں بنتی کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، لوگوں کی جائز شکایات کا ازالہ اور تحفظات کو دور کریں بلاوجہ کسی کو دیوار سے لگانا، کسی کا حق مارنا کسی کو غدار یا غیر محب وطن قرار دینا اور بلاوجہ بربریت کا نشانہ بنانا پہلے بھی ہمیں بہت مہنگا پڑ چکا ہے مگر ہم نے ٹھوکر کھا کر سنبھلنے اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنا شاید سیکھا ہی نہیں۔