خوش آمدید محترم نگراں وزیرِ اعظم
انتخابات کا چرچا توکافی عرصہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ انتخابات کب ہوں گے، اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا
ماہِ رواں ملک و قوم کے لیے ایک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ جس کی 14 تاریخ کو ہمارا پیارا وطن پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا۔ یہ وطن برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بے مثل قیادت کا ثمر ہے۔
پاکستانی قوم ہر سال 14 اگست کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ جشنِ آزادی مناتی ہے۔یہ دن ہمیں نیا جوش و ولولہ دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ بابائے قوم کے تاریخی ارشادات کی یاد دہانی بھی کراتا ہے جن پر عمل کرنا ہماری بقا اور سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے۔
اِس موقع پر جب کہ قوم نے اپنی آزادی کی 76 ویں سالگرہ منائی ہے ہمیں بانی پاکستان کا وژن یاد آرہا ہے جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ ریاست کے امور میں تبدیلی اور پالیسیوں میں رد و بدل انتخاب کے ذریعہ ہونا چاہیے۔ جمہوریت کی مضبوطی اور بر وقت انعقاد اور اس کے علاوہ انتخابات کا غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونا لازمی شرط ہے۔
انتخابات کا چرچا توکافی عرصہ سے ہو رہا ہے لیکن یہ انتخابات کب ہوں گے، اس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔انتخابات کے انعقاد میں ہونے والی تاخیر عوام اور سیاسی حلقوں کے لیے باعثِ تشویش تھی۔ کوئی پیش رفت نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب نگراں حکومت کا قیام تھا لیکن یہ کام جوئے شِیر لانے سے کم نہ تھا۔
سب سے بڑا مرحلہ نگراں حکومت کے سربراہ یعنی وزیرِ اعظم کی تلاش کا تھا۔ ایسا وزیرِ اعظم جو انتہائی ایماندار، غیر جانبدار اور قابلِ اعتبار ہو۔ اس کے علاوہ جو اس منصب کا پوری طرح اہل ہو۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کٹھن مرحلہ جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا، چناچہ اس کے لیے ڈھنڈیا شروع ہوگئی۔ بالآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے اور ہُما جناب انوار الحق کاکڑ کے سر پر بیٹھ گیا۔
قوم اور ملک کے سیاسی حلقوں نے اِس پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ سب سے زیادہ فکر یہ لاحق تھی کہ ملک جو پہلے ہی اقتصادی دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور اِس سے باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے زیادہ دیر تک معلق نہیں رہ سکتا۔ نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ کو ہمارا پرخلوص سلام۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اپنے فرائضِ منصبی احسن طریقہ سے انجام دیں گے اور امید واثق ہے کہ وہ ہماری اور پوری قوم کی توقعات پر پورا اُتریں گے۔
نگراں وزیرِ اعظم کی علمی صلاحیت یہ ہے کہ انھوں نے پولیٹیکل سائنس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے لیکن اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عملی سیاست میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔جملہ تمام اوصاف سے بڑھ کر اُن کا جوہرِ قابل یہ ہے کہ وہ ہر سیاسی جماعت کے فیورٹ ہیں۔
اُن کا حلقہ یاراں ہی نہیں بلکہ دل بھی بڑا اور کشادہ ہے۔ہمارا خیال ہے کہ ہر سیاسی جماعت نے اُن کے انتخاب پر نہایت خوش دلی کے ساتھ اظہارِ اطمینان کیا ہوگا۔ کاکڑ صاحب ایک شیر دل، باہمت اور حوصلہ مند سیاستدان ہیں۔ وہ اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمتِ مرداں مددِ خدا اور اِن شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
اُن کے انتخاب سے پہلے نگراں وزیرِ اعظم کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں اور پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں لیکن کاکڑ صاحب کے منتخب ہونے کے بعد یہ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں اور سیاسی نجومیوں کی تمام پیشگوئیاں غلط ثابت ہوگئی ہیں۔
جہاں تک نگراں وزیر اعظم کی حکمت عملی اور اُن کی ٹیم کی کارکردگی کا تعلق ہے تو یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم ہونہار پُوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں۔
اُن کا ماضی بے داغ ہے اور اِن شاء اللہ اُن کا مستقبل بھی بے داغ اور روشن ہوگا۔نگراں وزیر اعظم جس مسند پر تشریف فرما ہوئے ہیں وہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے اور اُن کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا ہوا ہے۔ اِس کا احساس اُنہیں بخوبی ہوگا لیکن اُن کا عزم پختہ اور ارادے مضبوط ہیں۔ وہ اِس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ:
مشکلے نیست کہ آساں نہ شَوَد
مرد باید کہ ہراساں نہ شَوَد
جس وقت یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے اُس وقت نگراں وزیرِ اعظم اپنی ٹیم تیار کر رہے ہیں، جس کا اعلان بعد میں ہوگا، تاہم یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ٹیم کا انتخاب کیپٹن کی صلاحیت کے مطابق ہوگا نہ کہ کسی کی سفارش اور گزارش پر۔ دیگر تمام باتوں کے علاوہ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ دیانتدار اور وطن دوست نگراں وزیرِ اعظم ایسے منصوبہ اور پالیسیاں مرتب کریں گے جو عوام دوست اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں جس میں معاشی اور خارجہ پالیسی بدرجہ اَتم شامل ہیں۔ ملک و قوم کو اِن بنیادی پالیسیوں کا شدت سے انتظار ہے۔
خارجہ پالیسی کا تقاضہ ہے کہ کسی کے پھڈے میں ٹانگ نہ اَڑائی جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ملک و قوم کو کافی نقصان اُٹھانا پڑ چکا ہے۔اِس حقیقت سے انکار نہیں کہ نگراں وزیرِ اعظم کے آگے مشکلات کا پہاڑ ہے۔
اُنہیں ملک کے سیاسی اور معاشی حالات کو درست کرنا ہے اور کسی کی حمایت کرنی ہے اور نہ کسی کی مخالفت۔ اُنہیں اپنا دامن صاف رکھنا ہے۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ دل میں یہ احساس رہے کہ ہم جو کام کررہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ پروردگارِ عالم کے سامنے ہے جو ہمارے کاموں کا ہی نہیں بلکہ ہماری نیتوں کو بھی خوب جانتا ہے اور ہم نہ صرف اِس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی اپنے کرتوتوں کے ذمے دار اور جوابدہ ہوں گے۔
ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر حکمرانوں نے کسی اور کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر خوفِ خدا کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی انجام دیے تو اُنہیں نہ صرف اِس دنیائے فانی بلکہ آخرت میں بھی کامیابی وکامرانی حاصل ہوگی۔