ایک نیا میثاق حکمرانی کا معاہدہ
عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہاں حکمرانی یعنی گورننس کا بحران ہے
بنیادی مسئلہ حکمرانی کے بحران کا ہے ۔ ایک شفاف، منصفانہ اور عوامی مفاد کے تحت بننے والا حکمرانی کا معاہدہ ہی سیاسی اور جمہوری نظام کی عملی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد فراہم کرسکتا ہے۔
عمومی طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہاں حکمرانی یعنی گورننس کا بحران ہے اور اس بحران کی وجہ سے ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان خلیج بھی ہے اور ایک ٹکراؤ یا لاتعلقی کا ماحول بھی ہے۔
امکان یہ ہی تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ہم حکمرانی کے بحران میں موجود مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں کامیاب ہونگے اور اختیارات کی مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت ہی کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام میں موجود مسائل کے حل میں شفافیت کے عمل کو فوقیت دیں گے ۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا ، 18ویں ترمیم کے باوجود عوامی مفادات اور حکمرانی کے بحران کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے کو نہیں مل سکی ۔
سیاست اور جمہوریت یا قانون کی حکمرانی کے عمل کا براہ راست تعلق اگر عوامی مفادات یا ان کی مشکلات کے حل سے نہیں ہوگا تو اس نظام کی ساکھ کیسے قائم ہوگی ؟ کیونکر لوگ جمہوری نظام پر اعتماد کریں گے اور کیوں اسی نظام کو اپنی سیاسی ، سماجی ، انصاف اور معاشی بقا کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے ۔
اس وقت ملک میں حکمرانی کے بحران پر ہم سیاسی تنہائی کا شکار ہیں کیونکہ مسئلہ کے بارے میں آگاہی ہونے کے باوجود بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ۔ جو بھی ریاست اور حکمرانی سے جڑے بااختیار لوگ یا ادارے ہیں یا جن کے پاس فیصلوں کا یا اصلاحات کا اختیارہے ان کے دلوں پر دستک کیسے دی جاسکے گی ؟ اس ریاست کو تجربہ گاہ بنانے کا جو تجربہ سامنے آیا ہے و ہ کافی سنگین ہے اور ہم ان تجربات کے بعد ایک گہری کھائی میں موجود ہیں ۔
اس سے باہر نکلنے کے لیے روائتی یا پرانی سطح پر مبنی خیالات کی مدد سے باہر نکلنے کی کوشش ہمیں مزید دلدل میں دھکیل رہی ہے ۔ کیونکہ ہم حکمرانی کے بحران کے حل میں یا تو سنجیدہ نہیں ہیں یا پھر ہم دنیا میں حکمرانی کے تجربات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کے لیے بھی تیار نہیں۔حکمرانی کے بحران کا حل ایک اچھی موثر اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام سے جڑا ہے ۔
ان میں منصفانہ وسائل کی تقسیم ، سیاسی و سماجی سطح پر انصاف کی فراہمی ، وسائل اور ادارہ جاتی سطح پر عام یا کمزور آدمی کی رسائی ، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ،عدالتی اور انصاف کے نظام میں شفافیت ، طبقاتی تقسیم کے مقابلے میں یکساں حکمرانی پر مبنی نظام، نگرانی اور احتساب کا موثر نظام ، فیصلہ سازی میں عام افراد کی شمولیت ، فکری آزادیاں ، متبادل نقطہ نظر کی اہمیت کو تسلیم کرنا ، ادارہ جاتی مضبوطی و شفافیت کا عمل جیسے امور شامل ہیں ۔
یہ سب چیزیں یا حقوق اسی صورت میں ممکن ہوتے ہیں جب یہاں حق حکمرانی عوام کے پاس ہو اور ان کو ہر سطح پر فیصلہ سازی کا حصہ بنا کر ان میں ریاستی ملکیت کے تصور کو مضبوط بنانا ہوتا ہے ۔لیکن یہاں ایک طاقت ور طبقہ پر موجود حکمرانی کا نظام کسی بھی صورت میں ہماری ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا اور یہ ہی طاقت ور طبقہ ریاستی وسائل اور حکمرانی کے نظام پر کنٹرول کرکے عام آدمی کی عملی زندگی میں اور زیادہ مشکلات پیدا کرتا ہے ۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ، سیاسی قیادت، سیاسی کارکنان ، سماجی اور سول سوسائٹی سے جڑی تنظیمیں ، میڈیا اور سیاسی و سماجی پریشر گروپس جو رائے عامہ کی تشکیل میں موثر کردار ادا کرتے ہیں وہ کیونکر کمزور ہیں یا ان کی فعالیت کا پہلو ہمیں کمزور بنیادوں پر نظر آتا ہے ۔ہمیں روائتی سطح کی سیاست ، جمہوریت اور حکمرانی کے نظام سے باہر نکلنا ہے۔
یہ کام محض فرد کی خواہش کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ فرد کی اس خواہش کو افراد کی عملی خواہش اور عملدرآمد کے نظام سے جوڑنا ہے ۔یہ سوال نئی بحثوں کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم کیسے ایک ایسے حکمرانی کے نظام پر متفق ہوں جو تمام فریقین کو راضی کرسکے یا مطمن کرسکے کہ ہم نے حکمرانی کے بحران میں موجود طور طریقوں کے مقابلے میں ایک متبادل ترقی یا گورننس یا جدید حکمرانی کے نظام کی طرف بڑھنا ہے ۔
ہم نے پاکستان میں ماضی میں دو بڑی جماعتوں کی جانب سے میثاق جمہوریت بھی دیکھا تھا اور اب بہت سے لوگ اس کو پیچھے چھوڑ کر میثاق معیشت کی بات کرتے ہیں ۔ اس طبقہ کے بقول سیاست کے مقابلے میں ہماری ترجیح معیشت کے نظام کی مضبوطی تک محدود ہونا چاہیے ، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر منطق دی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے سیاست اور جمہوریت کی باتوں کو پس پشت ڈال دیا جائے ۔
ہمیں جہاں سیاست ، جمہوریت اور معیشت سے متعلق اتفاق رائے چاہیے وہیں ایک بڑے مسئلہ جو حکمرانی کے نظام کی شفافیت کا ہے اس پر بھی اب ایک میثاق ہونا چاہیے ۔ ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست یا ایک دوسرے کو نیچا گرانے یا ایک دوسرے کی عدم قبولیت جیسے نقطوں کو بنیاد بنا کر ہم کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
ایک دلیل یہ ہے کہ اگر حکومت اور دیگر ریاستی ادارے خودکو اپنی اپنی آئین میں دی گئی حدود تک محدود کرلیں تو اس سے بھی کافی حد تک بحران حل ہوسکتا ہے ۔ یہ جو طرز عمل ہے کہ ہم ایک دوسرے کے اداروں میں نہ صرف مداخلت کرتے ہیں بلکہ ان پر اپنا ایجنڈا مسلط کرتے ہیں وہ مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید مسائل کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں ۔
اس وقت بھی ملک میں بہتری کے تناظر میں سیاسی ، معاشی اور انتظامی نوعیت سمیت وسائل، معدنیات یا دیگر معاملات کو بنیاد بنا کر مختلف کمیٹیو ں کی تشکیل کی جارہی ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان تمام امور کو جذباتیت اور نعروں کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں ۔ کوئی واضح روڈ میپ یا ٹھوس اقدامات پر مبنی پالیسی یا پروگرام کے مقابلے میں ایک جذباتی سطح کا ردعمل پایا جاتا ہے۔
جب تک ہم قومی سطح پر انتظامی ، سیاسی ، سیکیورٹی اور معاشی بنیادوں پر تمام اداروں کی سخت گیر اصلاحات یا موثر سرجری نہیں کریں گے اور نظام کی بہتری کے لیے کڑوی گولیاں نہیں لیں گے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ سخت گیر اصلاحات اور اقدامات کے بغیر ہم کچھ بھی نئے انداز میں تعمیر نہیں کرسکیں گے ۔ جب یہ اتفاق ہے کہ موجودہ غیر معمولی حالات ہیں تو ایسے میں غیر معمولی اقدامات ہی مسائل کا حل ہونگے۔
ہمارے فیصلہ ساز سرجوڑ کر بیٹھیں اور یہ اتفاق پیدا کریں کہ جس انداز میں ملک کو چلایا جارہا ہے ایسے مزید نہیں چلایا جائے گا ۔ ہمیں معاملات کو سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر مجموعی انداز میں مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ایسے میں ہمیں ایک نئے میثاق کی ضرورت ہے اور یہ ناگزیر ہوگیا ہے۔
اس میں سیاست ، جمہوریت ، معیشت اور گورننس سمیت آئین کے معاملات پر توجہ دینی ہوگی۔ مرکزیت کہ مقابلے میں عدم مرکزیت ، خود مختاری پر مبنی مقامی حکومتوں کے موثر اور شفاف نظام پر توجہ دے کر دنیا کے حکمرانی کے تجربات سے کچھ سیکھنا چاہیے۔
روائتی انداز میں سیاست ہو یا جمہوریت یا آئین وقانون کی حکمرانی یا سیکیورٹی کے معاملات یا داخلی و علاقائی مسائل کا حل ہمیں ایک نئے فریم ورک میں تلاش کرنا ہے اور اس پر سب کا اتفاق رائے بھی سامنے آنا چاہیے ۔لیکن کیا طاقت ور طبقہ خود کو قانون کی حکمرانی اور سیاسی و جمہوری اصولوں کے تحت لانا چاہتا ہے ، کیونکہ اگر طاقت ور طبقات نے ریاست اور عوام کے مقابلے میں اپنے مفادات کی سیاست کرنا ہے ، تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔