مصارف نقل و حمل اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں
ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا کیونکہ ہر شے کی خرید و فروخت نقل و حمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے
کسی بھی شے کی پیداوار میں مصارف نقل و حمل کا اہم ترین کردار ہوتا ہے اور پٹرولیم کی دریافت کے بعد مصارف نقل و حمل میں اسے اہم ترین مقام حاصل ہو چکا ہے۔
انیسویں صدی سے ملکی تجارت بین الاقوامی تجارت، کسی قسم کے سفر، نقل و حمل، پیداواری عمل حتیٰ کہ معاشی سرگرمیوں کے ہر ہر عمل میں پٹرولیم مصنوعات نے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ گزشتہ ساڑھے سات دہائیوں سے پاکستانی معیشت کو بھی پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے ناکوں چنے چبوا کر رکھ دیے ہیں۔
اسی بڑھتی قیمتوں نے صرف غریبوں کے بجٹ کو فیل نہیں کیا بلکہ اب تو امیروں کے بجٹ کی بھی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت پہلے ہی 272.95 روپے فی لیٹر تھی جو اب 17.5 روپے کے اضافے کے بعد 290.45 روپے فی لیٹر ہو چکی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل 293.40 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔
اب ایل پی جی گھریلو سلنڈر 2495 روپے کے بجائے 2615 روپے کا اور کمرشل سلنڈر 9580 روپے کے بجائے 10,030 روپے کا فروخت ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں پاکستانی معیشت اور عوام کس طرح مغموم و پریشان کھڑی ہے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
ہر شخص پر لرزہ طاری ہے کہ مہنگائی کا طوفان جو پہلے ہی تباہی پھیلا رہا ہے اب اس کی شدت میں مزید کتنا اضافہ ہوگا۔ یہ تمام باتیں نگران حکومت کے لیے ایک چیلنج ہیں کہ کس طرح بڑھتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کی شدت کو کم کرے۔ مہنگائی میں اضافے کا بنیادی عنصر اب کرایوں میں اضافہ ہوکر رہ گیا ہے۔
جس کا نہ خریدار کے پاس جواب ہے نہ فروخت کنندہ کے پاس شافی جواب ہے۔ جہاں تک ٹرانسپورٹرز کی طرف سے کرایوں میں اضافے کا تعلق ہے تو عموماً یہ دیکھا گیا کہ رات کے 12 بجے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
اس کے اگلے 5 منٹوں میں ہی کرایوں میں نسبتاً دگنا اضافہ کردیا جاتا۔ میں نے ہر اضافے کے موقع پر حساب کتاب لگایا، اعداد و شمار کا سہارا لیا، ہر مرتبہ یہی دہائی سنائی دی کہ جس نسبت سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اس نسبت سے کہیں دگنا کرایوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
بڑے شہروں کے روزانہ سفر کرنے والے مسافروں کا اس موقع پر برا حال ہوتا ہے جب بس، مزدا، ویگن کا کنڈیکٹر کسی قسم کا کرایہ نامہ دکھائے بغیر کرایوں میں مزید 10 سے 20 روپے کے اضافی کرایوں کا مطالبہ کرتا ہے تو ایسے میں بعض شہری بوکھلا کر اپنی ہر جیب کی تلاشی لیتے ہیں، بٹوے کھول کر بار بار چیک کرتے ہیں، پھر بڑی عاجزی و انکساری سے کنڈیکٹر بھائی سے التجا کرتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی شرح کی نسبت کرایوں میں زیادہ اضافے کے عمل کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی کارروائی کبھی نظر نہیں آئی۔ اس مرتبہ کرایوں میں 10 سے 20 فی صد اضافے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
نگران حکومت ان تمام باتوں کا جائزہ لے اور سخت ترین کارروائی کرے، کیونکہ پہلے ہی کرائے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو کرایوں میں انتہائی معمولی اضافہ نہ بھی کرتے تو ان کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے، لیکن صرف یہ بہانہ بنا کر ہر سطح پر کرایوں میں بے پناہ اضافہ کر لینا مہنگائی کو اپنی رفتار تیز کرنے کے لیے کھلی دعوت دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کرایوں میں اضافے کا براہ راست تعلق مہنگائی میں کھلم کھلا اضافے سے ہے۔
ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوگا کیونکہ ہر شے کی خرید و فروخت نقل و حمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ہر شخص چاہے دکاندار ہو یا ہول سیلر ہو حتیٰ کہ کارخانے دار مل اونر سب یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ مال بار برداری کے اخراجات بڑھ گئے ہیں لہٰذا ہم قیمت بڑھانے پر مجبور ہیں۔
لہٰذا حکومت وقت یہ دیکھے کہ یہ اضافہ کتنا اضافی ہے اور پہلے ہی جو کرایوں میں اضافہ کردیا گیا ہے وہ کتنا اضافی تھا۔
1990 کی دہائی تک صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ تمام تر جائزہ لینے کے بعد کرایہ نامہ کی لسٹ جاری کرتی تھی۔ پاکستان میں بڑے بڑے شہر خاص طور پر کراچی جہاں روزانہ لاکھوں افراد کئی کئی میلوں کا سفر طے کرنے کے لیے بس، مزدا، ویگن، چنگچی وغیرہ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے صوبائی حکومت انتہائی محتاط طریقے سے ٹرانسپورٹرز کے تمام اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرایہ نامہ طے کردیا جاتا تھا۔
جس پر اکثر و بیشتر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بس یا مزدا مالکان وغیرہ اپنی بسوں کو بھر بھر کر کس طرح مسافروں کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر لاد لیا کرتے تھے اور بہت سے منچلے نوجوانوں کو اس موقع پر دیکھا کہ وہ بھیڑ بکریاں بننا پسند نہیں کرتے تھے، وہ اپنی جان کی بازی لگا کر چھت پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔
اس عمل سے بعض اوقات ٹریفک پولیس والوں کی چاندی بھی ہو جاتی، اور ٹرانسپورٹرز کی لاکھوں روپے کی اضافی آمدن بھی ہو جاتی تھی۔
بہرحال مقصد یہ ہے کہ نگران حکومت اپنی آمد کا ثبوت دے تاکہ ٹرانسپورٹرز نے جس طرح عوام کے ہوش اڑا رکھے ہیں لہٰذا اب ان ٹرانسپورٹرز کو بھی ہوش میں آنا چاہیے اور کرایوں میں ایسے کمی آنی چاہیے کہ مہنگائی کے بڑھتے قدم جوکہ پٹرولیم مصنوعات کے بہانے عوام کو روندنے کے لیے تیار ہیں وہ رک جائیں اور مہنگائی میں بلا جواز اضافے کے تمام جواز کو ختم کرنا مہنگائی کو کسی حد تک کنٹرول کرنا، آٹا، چینی کے بھاؤ بلاوجہ بڑھ گئے ہیں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر صوبائی پرائس کنٹرول کمیٹی وغیرہ کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ فعال کرکے ایکشن لینے، جرمانہ کرنے اور دیگر اقدامات کے ذریعے ہی مہنگائی کو کسی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مصارف نقل و حمل میں بھی کمی لانے پر غور و فکر اور عملی اقدامات کیے جائیں۔