انسانی دماغ سپر کمپیوٹر
ہم اچھا سوچتے ہیں تو اچھا ہوتا جاتا ہے برا سوچنے کا انجام کبھی اچھا نہیں ہو سکتا
'' یہ وہ امان ہے جو امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان، جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذاہب کے لیے ہے۔ نہ ان کے گرجا گھروں میں سکونت اختیار کی جائے گی، نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کے احاطہ کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر قطعاً کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔''
یہ اس معاہدے کا عکس ہے جو حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المقدس کے عیسائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس سے پہلے ان علاقوں کی حالت کچھ اس طرح سے تھی کہ جو بھی فاتح ہوتا وہ ہم قوم ہونے کے باوجود وہاں کے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتا جو غلاموں سے بھی بدتر ہوتا۔ اہل شام رومیوں کے ہم مذہب تھے مگر اس کے باوجود انھیں اپنی زمینوں پر حقوق ملکیت حاصل نہ تھے وہ خود ایک قسم کی جائیداد تصور کیے جاتے۔ گویا آقا کے قبضے زمین آ جاتی تو وہ بھی اس کے ساتھ منتقل ہو جاتے، جیسے پہلے آقاکے لیے تھے۔
یہودیوں کی حالت تو اس سے بھی بری تھی وہ غیر مذہب کے پیروکار ہونے کے باعث اور بھی عذاب میں مبتلا تھے۔ روم اور فارس کے علاوہ ایران میں جو عیسائی آباد تھے ان کی حالت بھی شام کے یہودیوں کی طرح سخت قابل رحم تھی۔ ان تمام فاتح کے بعد جب یہ علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آئے تو ان کی حالت بدل گئی۔
حضرت عمر فاروق ؓ جو اسٹیٹ کو کنٹرول کرنے، قواعدوضوابط اور قانون کے حوالے سے آج بھی دنیا بھر میں معتبر جانے جاتے ہیں نے فتح کیے گئے علاقوں میں ایسا نظام رائج کیا اور انھیں مسلمانوں کے ساتھ مساویانہ حقوق دیے اور ان کا درجہ بلند کردیا گویا وہ کسی فاتح قوم کی مانند زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ ہر قوم کے بنیادی حقوق، جان، مال اور مذہب سے وابستہ ہوتے ہیں اور حضرت عمر فاروق ؓ نے ان بنیادی حقوق کا تحفظ کیا۔اسی قسم کے معاہدے باقی اقوام کے ساتھ بھی کیے گئے تھے۔ جرجان، موقان اور آذر بائیجان کے معاہدوں کے الفاظ کچھ اس طرح سے تھے۔
''جان و مال مذہب اور شریعت کو امان ہے۔''
مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے بھی پوری طرح آزادی تھی، وہ اعلانیہ طور پر ناقوس بجاتے، صلیب نکالتے اور اپنے مذہبی تہوار مناتے البتہ نماز کے وقت ناقوس بجانے کی ممانعت تھی۔ ایسا ہرگز نہ تھا کہ تبلیغ اسلام نہ کی جاتی لیکن کسی کو بھی مذہب کی تبدیلی کے لیے مجبور نہ کیا جاتا اور نہ ہی اس بارے میں سختی روا رکھی جاتی۔
بلاشبہ مفتوحین ایسے آقاؤں کے دور میں مطمئن اور پرسکون رہتے، یہ امن وآشتی یہ رواداری اسلام کا اہم سبق ہے جو صحابہ کرام کے ادوار میں بار بار دہرایا گیا، ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں قائم ہیں جس نے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بہترین حسن سلوک کا مظاہرہ کیا ہے۔
آج کے ترقی یافتہ اور جدید دور میں جب سائنس نے ترقی کی بلندیوں کو چھو لیا ہے، دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے وہیں انسانی ذہنی سطح کی وسعت سکڑتے سکڑتے نقطوں میں بٹتی جا رہی ہے۔ انسانی ترقی کا یہ دہرا معیار اسے ڈپریشن، مایوسی اور ناکامیوں کی دلدل میں اتارتا جا رہا ہے۔
نفرت ہمیشہ انسانی وجود میں منفی جذبات یا لہریں ابھارتی ہے اگر سائنسی تحقیق کی بات کی جائے تو یہ پہلو در پہلو ایک نئے رخ کی جانب چلتی چلی جائے گی۔انسانی دماغ ایک سپر کمپیوٹر کی مانند ہے، اس سپرکمپیوٹر میں تقریباً بیس ہزار کے قریب چپس ہیں جس کا ہم صرف دس فیصد ہی استعمال کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ آئن اسٹائن اپنے دماغ کا پندرہ فیصد استعمال کرتا تھا۔
انسانی دماغ نارمل صورتحال میں ایک بہترین ٹیلی فون ایکسچینج کی مانند کام کرتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ تمام پیغامات کو کس طرح کس وقت اور کس انداز سے پہنچانا ہے یہ ایک نہایت پیچیدہ اور نازک عمل ہے جس میں مختلف کیمیائی مادے بھی اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ ان تمام نازک اور حساس خزانے کو قدرت نے کھوپڑی جیسے مضبوط صندوق میں بند کرکے رکھا ہے۔
انسان کا ہنسنا، بولنا، غصہ کرنا، چلانا، رونا، مثبت اور منفی خیالات رکھنا ان تمام حساس انداز زندگی کے باعث نہ صرف انسان کے اردگرد کا ماحول متاثر ہوتا ہے بلکہ خود اس کے اپنے جسم کے اندر ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ ہمیں کب بھوک کا احساس ہوتا ہے کب پیاس کا احساس ہوتا ہے یہ سارے قدرتی عوامل نہایت پیچیدہ مراحل کے بعد انجام پاتے ہیں، جس کا انسان کو احساس تک نہیں ہوتا وہ بس لمحوں میں اپنے عمل کو انجام دے دیتا ہے اور گھونٹ بھر ٹھنڈا شربت اتار لیتا ہے، چٹ پٹا کھانا چت کر جاتا ہے، کڑوے کھانے اسے ناگوار گزرتے ہیں۔
آخر یہ سب کیسے ہوتا ہے، یہ کیوں کر ہوتا ہے؟ انسانی جسم کی ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ چلنے والی سائینکا نرو سر سے لے کر پورے جسم میں گچھوں کی سی صورت میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔ یہ بال جیسے نازک گچھے پورے جسم سے پیغامات وصول کرتے ہیں یہ ایک اعلیٰ اعصابی نظام ہے۔انسانی دماغ کے خلیات میں برقی روئیں پیدا ہوتی ہیں جو انسانی آنکھ بند ہونے سے لے کر احساسات کی شدت اور ذہنی دباؤ، کام، تناؤ اور غیر ضروری تحریک کے باعث انسانی صحت پر اپنے اثرات چھوڑتی ہیں۔
آج کا ترقی یافتہ انسان کس جانب سفر کر رہا ہے، کیا وہ نہیں جانتا کہ تعصب، نفرت، حسد، رقابت اور تشدد انسانی صحت پر کس قدر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ دنیا کو کیا دیا جا رہا ہے، ایک ایسا مضر ماحول جو شیطانیت کے جال میں بری طرح الجھ کر انسانی دماغ کی برقی رو کو اس قدر مشتعل کر دے جو نہ صرف اس کے ارد گرد کے ماحول کو آلودہ کر دے بلکہ خود اس کی اپنی صحت کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو۔
ہم اچھا سوچتے ہیں تو اچھا ہوتا جاتا ہے برا سوچنے کا انجام کبھی اچھا نہیں ہو سکتا۔ سوئیڈن میں ہونے والے اس قبیح واقع کو آج دنیا کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اسلام ایک مکمل مذہب ہے جو دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے انسانی اذہان کی صحت مندانہ انداز میں تربیت کرتا ہے۔ ایک ایسا مذہب جس کے ہر پہلو میں کیمیا، طبیعات، حیاتیات اور دیگر سائنسی علوم جڑے ہیں، تحقیق جاری ہے۔
قرآن پاک ان تمام تحقیقات کا ایک عجب منبع ہے جس کے ہر حرف میں نجانے کتنے اسرار چھپے ہیں جسے صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کے دل و دماغ کے پردے روشن ہوں، تعصب، عصبیت، نفرت، حسد و رقابت سے پاک۔ یہ کتاب جس مصنف کی ہے اس کی حرمت پر کسی کم ظرف کی کم ظرفی سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا کہ وہ خود سب سے عظیم عزت والا رب ہے۔ دنیا کیا سمجھتی ہے کیا چاہتی ہے اس کی حرمت پر حرف بھی نہیں آسکتا۔