کراچی کے چار دلیپ کمار آخری قسط
اداکار حنیف نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ بہت خوش گوار اور کامیاب زندگی گزار رہا تھا اور ایک کامیاب اداکار تھا
یہ گیت بھی مسعود رانا کی آواز میں ان دنوں بڑا ہٹ ہوا تھا اور اداکار حنیف کی اداکاری کو بھی فلم کریٹکس اور فلم بینوں نے بھی پسند کیا تھا، کراچی کی چند ہٹ فلموں کے بعد اداکار حنیف کو لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی پذیرائی ملی تھی۔ اس نے لاہورکے نام ور ہدایت کار نذرالاسلام اور ہدایت کار پرویز ملک کی فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں فلم آئینہ اور پاکیزہ بھی تھی۔
حنیف کی یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ جب فلم ساز، ہدایت کار اور شاعر نخشب جارچوی نے اپنی فلم میخانہ بنائی تو انھوں نے بھی دلیپ کمار کی مشابہت کی وجہ سے اداکار حبیب کے ساتھ سائیڈ ہیرو میں کاسٹ کیا تھا، فلم میں اداکار حنیف کا پیئر اداکارہ شمیم آرا کے ساتھ بنایا گیا تھا جب کہ حبیب کے ساتھ فردوس کو لیا گیا تھا۔
اس فلم کے دیگر آرٹسٹوں میں رخسانہ، سیما اور لہری بھی شامل تھے اور نخشب جارچوی نے جس اداکارہ فردوس کو اپنی فلم میخانہ میں اچھے انداز سے متعارف کرایا تھا پھر یہی اداکارہ فردوس لاہور کی فلم انڈسٹری کی جان بن گئی تھی اور پنجابی فلموں کو جتنی شہرت ملی اس میں اداکارہ فردوس کو کریڈٹ جاتا ہے۔ پھر ہیر رانجھا کی شوٹنگ کے دوران ہی فردوس اور اعجاز کا عشق شروع ہوا جو شادی تک پہنچا اور یہی فلم اعجاز اور میڈم نور جہاں کے درمیان طلاق کا باعث بنی تھی۔ اداکار حنیف کو مارواڑی، گجراتی، میمنی اور سندھی بھی آتی تھی مگر حنیف نے لاہور جا کر پنجابی فلموں میں بھی کام کیا جن میں '' نوکر ووہٹی دا'' میں مہمان اداکار اور پنجابی فلم نوکر اور خان زادہ میں بھی بڑی اچھی اداکاری کی تھی۔
ولن کے کردار میں فلم چن وریام اور بنارسی ٹھگ میں بھی کام کیا تھا، فلم ہم دونوں میں اداکار کمال کے ساتھ بھی حنیف نے بڑا خوبصورت کردار کیا تھا، یہاں میں اداکار حنیف کی ایک اور بہترین فلم کا تذکرہ بھی کروں گا جو کراچی ہی میں بنائی گئی تھی، فلم قومی سلامتی کے موضوع پر تھی، اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار اقبال رضوی تھے، فلم کا نام آزادی یا موت جو 1966 میں ریلیز ہوئی تھی یہ نیازی فلمز کے بینر تلے بنائی گئی تھی۔ صوفیہ بانو، حنیف فلم کے مرکزی کردار تھے۔ بقیہ آرٹسٹوں میں روزینہ، فیروز، سیٹھی، شیخ اقبال بھی تھے۔
فلم کے کیمرہ مین شفن مرزا تھے جب کہ ان کے معاون کیمرہ مین جان محمد جمن تھے پھر جان محمد جمن لاہورکے نام ور کیمرہ مینوں میں شامل رہے، اداکار و فلم ساز ہدایت کار رنگیلا کی پروڈکشن میں رہے اور پھر بعد میں ایک کامیاب فلم سازوہدایت کار بن کر لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنا خوب نام چمکایا تھا۔ حنیف کی فلم آزادی موت نے کراچی میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔
میری اس سے ایک آخری ملاقات بھی بڑی دلچسپ تھی، میں عام دنوں میں صبح کے وقت اور اتوار کو رات کے وقت مارواڑی محلے کی ایک لائبریری میں جاتا تھا۔ ایک اتوار کی رات میں اس لائبریری میں جانے کے لیے جیسے ہی اس کے دروازے کی طرف گیا برابر کی بلڈنگ سے اداکار حنیف اتر کر اسی طرف آ رہا تھا، قریب ہی اس کی لال رنگ کی خوبصورت گاڑی کھڑی تھی، مجھے دیکھتے ہی بولا ارے ہمدم صاحب! آپ ہمارے محلے میں، پھر میں نے پہلی بار بتایا کہ میں تمہارے محلے مارواڑی لائن کے برابر رامسوامی کے علاقے میں رہتا ہوں اور میرا بچپن بھی اسی پرانے محلے میں گزرا ہے تو اس نے خوش ہو کر کہا تھا، یار ہمدم صاحب! پھر تو ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اور پھر وہ اصرار کرکے گراؤنڈ فلور پر اپنے ایک خاص کمرے میں مجھے لے گیا اور میں حیرت سے اس کے خوبصورت کمرے کو دیکھ رہا تھا۔
دیواروں پر چاروں طرف دلیپ کمار کی تصویریں فریم شدہ جگمگا رہی تھیں، اداکار حنیف نے دلیپ کمار کی فلم انداز، آن، امر، اڑن کھٹولا، بابل اور دیدار کی تصویریں بڑی محبت سے کمرے کی دیواروں پر لگا رکھی تھیں۔ میں تصویریں دیکھ رہا تھا اور حنیف ان تصاویر کی تفصیل بھی بتاتا جا رہا تھا کہ وہ کس کس فلم کی ہیں اور اس نے دلیپ کمار کی وہ فلمیں کتنی کتنی بار دیکھی ہیں، وہ کہہ رہا تھا دلیپ کمار صاحب ہمارے آئیڈیل بھی ہیں، ہمارے روحانی استاد بھی ہیں اور ہم تو ہیں عاشق پرانے اس دلیپ کمار کے۔ اسی دوران باہر سے منگوائی گئی دودھ پتی والی چائے بھی آگئی جو ہم مارواڑی محلے کے ہوٹل کی موہنی کے ساتھ کھا رہے تھے۔
اسی دوران فضا میں تھالی بجانے کی تیز تیز آوازیں آنے لگی تھیں، میں نے حنیف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں؟ حنیف نے مسکراتے ہوئے بتایا آپ فکر نہ کریں یہ خوشی کی خبر ہے۔ ہماری برادری میں جس دن جس وقت جس کے بھی گھر میں کسی نئے بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسی وقت ساری برادری کو اس خوشخبری کی اطلاع تھالیاں بجا کر دی جاتی ہے۔ یہ ہماری برادری کا ایک دستور ہے، ایک رسم ہے جو فوراً پوری کی جاتی ہے۔ اداکار حنیف سے اس بھرپور ملاقات میں بہت ساری دلچسپ باتیں ہوئی تھیں۔
اداکار حنیف نے دو شادیاں کی تھیں اور وہ بہت خوش گوار اور کامیاب زندگی گزار رہا تھا اور ایک کامیاب اداکار تھا۔ اس نے کئی فلموں میں ہیرو کا پھر سائیڈ ہیروز کا اور بہت سی فلموں میں ولن کا کردار بھی ادا کیا تھا اور پاکستان کے ہر بڑے ڈائریکٹر کی فلم میں کام کیا تھا۔ وہ یاروں کا یار تھا، وہ اکثر و بیشتر اپنے دوستوں کی مدد بھی بڑی خاموشی سے کردیا کرتا تھا۔ آج جب میں امریکا کی ریاست نیوجرسی میں بیٹھا اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں تو اس کا مسکراتا ہوا چہرہ میری آنکھوں میں بس گیا ہے۔ وہ بہت ہی دریا دل شخصیت کا حامل انسان تھا، میں نے فلم انڈسٹری میں شاذ و نادر ہی ایسے لوگ دیکھے ہیں، اللہ اس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین۔)