میر صاحب کے افکار اور آج کا پاکستان
پاکستان اگر ایک قومی اور جمہوری ریاست نہیں بناتو اس لیے کہ جمہوریت ،غیر فرقہ ورایت کے بغیر ناممکن ہے
یہ دکھ کی بات ہے لیکن ایک حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا تصور ناقابل حد تک خراب ہوچکا ہے، جس کی مثال یہ بھی ہے کہ ہمارے پاسپورٹ کا شمار دنیا کے پانچ بدترین سرفہرست پااسپورٹس میں ہوتا ہے۔
جڑانوالہ کے حالیہ سانحے نے ہمارے امیج کو خطرناک حد تک مزید خراب کردیا ہے۔ اس کے اثرات اور مضمرات مستقبل قریب میں ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔ اگست کے مہینے میں ہم ملک کی تخلیق کی سالگرہ مناتے ہیں، بدقسمتی سے یہ اندوہناک واقعہ بھی اسی مہینے میں پیش آیا ہے۔
اس ماہ کا ایک اہم حوالہ اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر کے ایک غیر معمولی سیاسی رہنما نے دنیا سے کوچ کیاجس کی باتوں پر عمل کیا گیا ہوتا تو عالمی منظر نامے پر پاکستان کی نمایاں شناخت ایک روشن خیال، روادار، جمہوری اور فلاحی ملک کے طور پر ہوتی اور ہم بہت سے ترقی پذیر ملکوں کے لیے ایک مثال ہوتے۔
اس عظیم رہنما کا نام میر غوث بخش بزنجو تھا، وہ اور ان جیسے دیگر کئی سیاسی اکابرین کے افکار پر عمل نہ کرکے ہم آج اس مقام پر پہنچے ہیں، لہٰذا میرصاحب کے خیالات کو تازہ کرنا وقت کا شدید تقاضہ بھی ہے۔
1935 میں کوئٹہ ہولناک زلزلے کا شکار ہوا ۔ کوئٹہ کی بربادی کے باعث بزنجو صاحب کراچی آگئے جہاں انھوں نے مشہور سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لے لیا، وہ فٹ بال کے اچھے کھلاڑی تھے۔ ضیاء الدین انھیں علی گڑھ یونیورسٹی لے گئے جہاں انھوں نے اپنی تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستان میں مسلم سیاست کا مرکز تھی۔ وہاں ان کا رابطہ کمیونسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں سے ہوا اور وہ ترقی پسند افکار سے بہت متاثر ہوئے۔
1938 میں وہ علی گڑھ سے واپس آگئے اور کراچی میں قائم بلوچ دانشوروں کی جماعت بلوچ لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ یہاں سے ان کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔ قیام پاکستان سے آٹھ سال پہلے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے سالانہ اجلاس میں انھوں نے بلوچ لیگ کی نمایندگی کی تھی۔ بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت کے بعد خان آف قلات نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ انھوں نے غوث بخش بزنجو اور میرگل خان نصیر کو بھی مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔
ان دونوں نے یہ سوچ کران کی دعوت قبول کرلی کہ اس طرح انھیں پاکستان کی سطح پر اپنی سیاست کو آگے بڑھانے کا موقع مل جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ میر صاحب ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی دانشور تھے، ان کے تجزیے کم ہی غلط ہوا کرتے تھے۔ تاہم، مسلم لیگ میں شمولیت کے حوالے سے ان کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا، یہ ان کی سیاسی غلطیوں میں پہلی اور غالباً آخری غلطی تھی۔ تمام ریاستوں اور صوبوں کو مدغم کرکے جب ون یونٹ تشکیل دیا گیا تو بزنجو صاحب کو شدید مایوسی ہوئی۔
انھوں نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی ۔1956 میں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلانے کے لیے سندھ، پنجاب، اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کی کئی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے مل کر پاکستان نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ پاکستان کی یہ وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس میں ترقی پسند، قوم پرست، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور روشن خیال فکر کے لوگ ایک ساتھ مل کر جدوجہد کررہے تھے، لیکن پھر سیاسی حالات نے کروٹ بدلی اور مولانا بھاشانی عوامی لیگ سے الگ ہوکر پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل ہوگئے۔
اس طرح نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آگئی۔ نیشنل عوامی پارٹی اس وقت کے پاکستان کی واحد پارٹی تھی جس میں ملک کے تقریباً تمام ترقی پسند، سیکولر، قوم پرست اور جمہوریت پسند سیاسی رہنما اور کارکن شامل تھے۔
جیل جانے کے حوالے سے بزنجو صاحب نے بعض دلچسپ باتیں لکھی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ''1940میں (بلوچستان کی) ریاستی حکومت نے ہمیں گرفتار کیا اور ریاستی جیلوں میں رکھا۔ ظاہر ہے ریاستی جیل عام جیلوں سے مختلف ہوتی ہے، مشکلات زیادہ ہوتی ہیں، چھ مہینے ہم قید میں رہے مگر اذیت کے لحاظ سے وہ ایک بھیانک عرصہ ثابت ہوا۔ ظاہر ہے پہلی دفعہ جیل جاکر انسان آزادیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور مختصر دائرے میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے۔ اس سے انسان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے، کچھ چڑچڑاپن بھی آجاتا ہے۔
اس طرح کے عام اثرات ہم پر بھی پڑے لیکن انسانی فطرت کے مطابق ہم نے بھی اپنے آپ کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس لیے جیل جانا کوئی مشکل نہیں لگتا تھا مگر جیل تو جیل ہے، اصل جیل تو ذ ہنی ہوتی ہے۔ جسمانی طور پر آدمی اپنے کو ایڈجسٹ کرلیتا ہے مگر ذہنی طور پر بہت زیادہ مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔''اس قید و بند نے بزنجو صاحب کے سیاسی شعور اور استقامت کو صیقل کیا اور وہ آزادی کے بعد پاکستانی سیاست کے افق پر ایک وسیع النظر اور روشن فکر سیاستدان کے طور پر ابھرے۔
مرکزی حکومت کی زیادتیوں کے باوجود انھوں نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی اور اس کی خوشحالی کے لیے کام کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی منتخب حکومت برطرف کی، تب بھی انھوں نے پاکستان کے خلاف کسی قسم کی مہم نہیں چلائی۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستانی آئین کے مرتب کرنیوالوں اور اسے متفقہ طور پر منظور کرانے والوں میں سے تھے۔ مفاہمت کی اس سیاست کے صلے میں ان پر، عطاء اللہ مینگل، ولی خان اور دوسرے رہنماؤں پر ''غداری'' کا مقدمہ بنایا گیا۔ انھوں نے برٹش راج اور پاکستانی حکومتوں کی عنایتوں سے اپنی زندگی کا چوتھائی حصہ جیل میں گزارا۔
ریاستی ذرایع ابلاغ کے ذریعے اور سرکاری اشتہارات پر پلنے والے اخبارات کے صفحوں پر انھیں 'تخریب کار ، غدار اور وطن فروش ثابت کیا گیا۔ بلوچستان کے نہتے اور بے گناہ شہریوں پر بمباری کی گئی۔ بہت سے بلوچ سردار ملک چھوڑ گئے لیکن میر غوث بخش بزنجو پاکستان میں رہے اور آخری سانس تک مختلف سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو جوڑ کر پاکستان میں بہتر تبدیلیوں کی کوشش کرتے رہے۔ وہ مفاہمت اور مذاکرات کے ذریعے سیاست کے قائل تھے ۔
ہمارے ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی عام انتخابات کے انعقاد کے بعد یہ فرض کرلیتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہوچکی ہے جب کہ جمہوری عمل کی بحالی اور جمہوریت کے استحکام کی طرف یہ محض پہلا قدم ہوتا ہے۔ اصل امتحان جمہوری جدوجہد کے ثمرات کو بچانا اور مستحکم کرنا ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے اسی نفاق کی بناء پر غوث بخش بزنجو تمام جمہوری قوتوں سے آخری سانس تک یہی کہتے رہے کہ انھیں پاکستان میں فوجی آمریتوں کے خلاف اور صرف جمہوریت کی بحالی کے لیے ہی جدوجہد نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کے بعد بھی آئین کی بالادستی، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور عدلیہ کی آزادی کے لیے بھی متحد اور منظم رہنا چاہیے، تب ہی پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال ہو سکے گی۔
غوث بخش بزنجو کا تجزیہ تھا کہ''اگر اس خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے تو پاکستان،ایران، افغانستان اور ہندوستان کو اپنے درمیان تعلقات کا ایک نظام تشکیل دینا ہوگا جس کے ذریعے یہ ملک اپنے اپنے قومی مفادت کو تحفظ دے سکیں اور اس کے ساتھ ہی وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے اجتماعی علاقائی مفادات کے حصول کو بھی یقینی بنا سکیں، اگر ایسا نہ ہوا تو ان ملکوں کے درمیان ٹکراؤ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور آپ کو مختلف زمانوں میں ان ملکوں کے درمیان جنگیں دیکھنے کو ملیں گی۔
یہی وہ صورتحال ہے جو مخصوص مفادات رکھنے والی بیرونی طاقتوں کو اس خطے کے معاملات میں دخل دینے کا جواز فراہم کرتی ہے جس سے اس خطے میں امن اور استحکام کی صورت حال عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہے۔'' ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بزنجو صاحب ہمارے درمیان موجود ہیں اور آج کے حالات پر گفتگو کر رہے ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے کروڑوں انسانوں کی نمایندگی کرنے والی جمہوری اور سیاسی قوتیں چند طالع آزمائوں کے خلاف پسپا کیوں ہوتی ہیں۔؟ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ طالع آزما متحد ہیں اور جمہوری قوتیں بکھری ہوئی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے اختلافی معاملات پر ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتی ہیں، بزنجو صاحب کا ایمان تھا کہ جمہوریت کا استحکام جمہوری قوتوںکے اتحاد میں مضمر ہے۔
برسوں پہلے متذکرہ بالا سوال کا جواب دیتے ہوئے بزنجو صاحب نے کہا تھا ۔۔'' اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ایک صحیح نظام حکومت اور سیاسی ڈھانچہ دستیاب ہوگیا تو وہ اس ملک کے وسائل اور اس کے عوام کی قسمت سے کھیلنے کی اہلیت برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ان کے مفادات کا تقاضہ ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی صحیح سیاسی ڈھانچہ ،کوئی واضح نصب العین نہ ہو اور پاکستان کے عوام ہمیشہ ذ ہنی انتشار کی کیفیت میں مبتلا رہیں۔ اسی لیے انھوں نے ہمیں ایک قوم اور پاکستان کے لیے ایک صحیح سیاسی ڈھانچہ نہیں بننے دیا۔
پاکستان اگر ایک قومی اور جمہوری ریاست نہیں بناتو اس لیے کہ جمہوریت ،غیر فرقہ ورایت کے بغیر ناممکن ہے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فرقہ واریت کی بنا پر کوئی جمہوریت قائم ہوسکتی ہے تو وہ محض غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ہم نے میر غوث بخش بزنجو اور ان جیسے کئی بزرگ رہنمائوں کے افکار پر عمل کیا ہوتا تو آج کا پاکستان کتنا مختلف ہوتا۔