مرتضیٰ سولنگی صاحب سے میڈیا کی توقعات
سولنگی صاحب پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہر میدان میں کامیابی سے طبع آزمائی کر چکے ہیں
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی ایم کی سابق حکومت کے ایک رکن، جناب اختر مینگل، کو نگران وزیر عظم، جناب انوارالحق کاکڑ، کے کرسی سنبھالنے پر خواہ کتنے ہی اعتراضات ہوں،حقیقت مگر یہی ہے کہ اب کاکڑ صاحب ایوانِ اقتدار میں داخل ہو چکے ہیں۔ تقریباً سبھی سیاسی جماعتیں اُن کی شخصیت پر متفق بھی ہو چکی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلنکن، کی جانب سے نگران وزیر اعظم کو مبارکباد بھی مل چکی ہے اور یہ پیغام بھی مل چکا ہے کہ امریکی حکومت کاکڑ صاحب کی نگران حکومت سے ہر ممکن تعاون کرے گی۔ یہ پیغام نگران حکومت کے لیے خاصا اطمینان بخش ہوگا۔
ہمارے دو قریبی عرب برادر ممالک کے سفرا نے بھی فوری طور پر نگران وزیر اعظم سے ملاقات کرکے خیر سگالی کے پیغامات دیے ہیں۔ ایسے خوشگوار ماحول میں انوارالحق صاحب کی تعیناتی کے خلاف اختر مینگل صاحب کا ناراضی سے لکھا گیا خط بے معنی سا بن کر رہ گیا ہے۔ کسی طناز نے خوب کہا ہے کہ '' اختر مینگل صاحب کا خط تو مناسب تھا لیکن غلط پتے پر بھیجا گیا ۔'' یاد رہے مینگل صاحب نے اپنا خط جناب نواز شریف کے نام لکھا تھا۔
یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ جب 14اگست کے یومِ سعید کے موقع پر پریذیڈنٹ ہاؤس میں نگران وزیر اعظم نے حلف اُٹھایا تو اس شاندار تقریب میں اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفرا نے زیادہ تعداد میں شرکت نہیں کی۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی ایف کے وابستگان بھی غیر حاضر پائے گئے۔
نگران وزیر اعظم اور اُن کی 16رُکنی نگران کابینہ بارے ابھی تک ملک بھر کی صحافی برادری حیرت میں مبتلا ہے ۔ ہمارے کئی صحافیوں، اینکروں، تجزیہ نگاروں، ولاگروں اور کالم نگاروں نے اپنے اپنے قیافوں اور اندازوں کے گھوڑے سر پٹ دوڑائے اور پیش گوئیاں کیں کہ فلاں نگران وزیر اعظم اور فلاں نگران وزرا حلف اُٹھائیں گے۔ سب گھوڑے تھک گئے مگر کوئی ایک بھی ایسی خبر نہ لا سکا جو درست ثابت ہوتی۔
سب کے قیافے اور اندازے قطعی بے بنیاد اور غلط ثابت ہُوئے۔ اِسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ''اندر کی خبر'' لانے والے کتنے باخبر ہیں ؟ بعض جوانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ہمارے ''باخبروں'' کو ''اُدھر'' سے خاص خبر نہ ملے تو اُن کی باخبری کے سوتے خشک ہو جاتے ہیں۔ اور اِس بار ''اُدھر'' والوں نے ایسی پکّی رازداری دکھائی کہ قیافہ شناسوں کو شہ مات دے ڈالی۔
نگران کابینہ بارے کی گئی سبھی پیشگوئیاں بھی غلط ثابت ہُوئیں۔ حتیٰ کہ اب نگران وزیر خارجہ، جناب جلیل عباس جیلانی ، کو کہنا پڑا ہے : نجانے یار لوگ مجھے نگران وزیر اعظم بنانے پر کیوں تُلے ہُوئے تھے ؟ نگران وزیر اعظم جناب انوارالحق کی 16رُکنی نگران وفاقی وزرا کی کارکردگی، کمٹمنٹ اور مہارت تو ہم اگلے چند ماہ کے دوران ملاحظہ کریں گے کہ ہر نگران وفاقی وزیر پر 25کروڑ لوگوں کی نظریں گڑی ہیں۔ ہمیں تو زیادہ خوشی اور اطمینان اِس بات پر ہے کہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قرعہ ایک ایسے شخص کے نام نکلا ہے جو ہماری صحافتی برادری کے ایک ممتاز اور محترم فرد ہیں یعنی جناب مرتضیٰ سولنگی۔
پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ ، جناب محسن نقوی ، نے نگران وزیر اطلاعات کا انتخاب ایک ایسے شخص کا کیا تھا جو وطنِ عزیز کے نامور اور معروف صحافی اور مصنف ہیں یعنی جناب عامر میر ۔ پچھلے تین ماہ کے دوران عامر میر صاحب نے اپنے سرکاری کردار سے ثابت کیا ہے کہ محسن نقوی کا چناؤ بالکل درست تھا ۔ یہی توقع ہم مرتضیٰ سولنگی صاحب سے بھی رکھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے سرکاری کردارافعال سے ثابت کریں گے کہ نگران وزیر اعظم جناب انوارالحق کاکڑ کا انتخاب غلط نہیں تھا۔
ویسے تو ہر وزیر اطلاعات وزیر اعظم اور حکومت کی پالیسیوں، فیصلوں اور اقدامات ہی کی تعریف و تشہیر کے لیے مختص ہوتا ہے ۔ اِس کے ساتھ ہی مگر اُسے مملکتِ خداداد کے نظریئے اوراستحکام کی بھی پاسبانی اور نگرانی کرنا پڑتی ہے کہ وہ حکومت کا مرکزی ترجمان بھی ہوتا ہے۔ صحافی ہر وزیر اطلاعات سے بلند توقعات بھی وابستہ کر لیتے ہیں۔
اگرچہ اِن توقعات کا عشرِ عشیر بھی کبھی پورا نہیں ہوتا۔ وزیر اطلاعات و نشریات سے ملک بھر کے میڈیا اور ہمہ قسم کے میڈیا پرسنز سے واسطہ پڑتا ہے۔ سرکاری اور نجی ٹی ویوں کی اسکرینوں پر جو چہرہ زیادہ متحرک اورنظر آتا ہے وہ وفاقی وزیر اطلاعات ہی کا ہوتا ہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات ، خواہ وہ نگران ہی کا کیوں نہ ہو، اخبار نویس برادری کی توپوں کے دہانے کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔اب انوارالحق کاکڑ صاحب نے یہ کڑی آزمائش مرتضیٰ سولنگی صاحب کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔
سولنگی صاحب پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ہر میدان میں کامیابی سے طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ وہ ایک گزشتہ حکومت میں ریڈیو پاکستان کے ڈی جی کے فرائض بھی احسن اسلوب میں ادا کر چکے ہیں۔ ایک ممتاز اور معروف امریکی میڈیا میں اپنی صحافت اور خبر داری کا لوہا بھی منوا چکے ہیں۔ وطنِ عزیز کے ایک مشہور ویب ٹی وی پر ہفتہ میں کئی بار پاکستان کے کرنٹ افیئرز پر تبصرہ نگاری اور حاشیہ آرائی بھی کرتے رہے ہیں۔ یوں یہ کہنا بجا ہوگا کہ نگران وزیر اعظم نے اپنے نگران وفاقی وزیر اطلاعات کا چناؤ بالکل ٹھیک کیا ہے۔
مرتضیٰ سولنگی صاحب کی جملہ تحریروں ، تقریروں اور تجزیوں کو سنا اور دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ لبرل خیالات کے حامل دانشور ہیں۔ تنگ نظری اور ہر قسم کے سیاسی و مذہبی تعصبات سے دُور رہنے والے ۔ وہ ہمارے کئی نجی ٹی ویوں پر بطورِ سینئر تجزیہ نگار اپنے خیالات و آرا سے سامعین و ناظرین کو مستفید کرتے رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوشی یہ ہے کہ مرتضی سولنگی صاحب ورکنگ جرنلسٹ کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔
اُن کی اخبار نویسی کے کارن کئی گروہ اُن کے مخالف بھی بنے۔ انھیں بے روزگار بھی کیا گیا لیکن حرفِ مطبوعہ سے وہ لاتعلق نہ ہُوئے ۔ یہ بات بھی باعثِ مسرت ہے کہ وہ'' ایکسپریس ٹربیون'' کے ممتاز اور محترم کالم نگار بھی رہے ہیں ۔ لاہور سے شایع ہونے والا ایک انگریزی موقر ہفت روزہ جریدہ آجکل اُن کی تحریروں کو شایع کرنے کا اعزاز حاصل کررہا تھا ۔
مثال کے طور پر رواں ماہ کے پہلے ہفتے جب اسلام آباد کی ایک عدالت نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کو تین سال قید اور پانچ سال نااہلی کی سزا سنائی اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہُوئی تو مرتضیٰ سولنگی صاحب نے اِسی پس منظر میں مذکورہ بالا جریدے میں ایک مفصل کالم لکھا ۔ اِس کا عنوان تھا:Another Assembly Completes its Tenure, another Prime Minister Disqualified ایسے باخبر کالم نگار و صحافی کا نگران وزیر اطلاعات و نشریات متعین ہونا صحافی برادری کے لیے مقامِ فخر ہے۔
مرتضیٰ سولنگی صاحب کی پہلی پریس کانفرنس بھی خوب رہی ۔ انھوں نے سابق وزیر اطلاعات، محترمہ مریم اورنگزیب، سے اُن کے گھر جا کر جو ملاقات کی ہے، یہ بھی مستحسن اقدام ہے۔سانحہ جڑانوالہ اور شاہ محمود قریشی کی پھر گرفتاری کے بعد نگران حکومت کو جو نئے مسائل درپیش ہُوئے ہیں، سولنگی صاحب کے لیے یہ آزمائش ہیں کہ وہ میڈیا میں اِن سے کس طرح نمٹتے ہیں؟