نگراں حکومت کے لیے سخت امتحان
نگراں حکومت سے بھی ہماری استدعا ہے کہ میڈیا کے ساتھ اپنا رابطہ جلد سے جلد استوارکرے
پاکستان کے عوام کی نگاہیں نگراں حکومت کی آمد پر مرکوز تھیں۔ انھیں ایسی قیادت کا انتظار تھا جو اُن کے دکھوں کا مداوا کرے اور اُن کے زخموں پر مرہم رکھے۔ ایسی قیادت جو انھیں مہنگائی کی چکی میں پسنے سے نجات دلائے لیکن نگراں حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اُن پر ایک اور بم گرا دیا جس کی وجہ سے بے بس اور لاچار عوام حیران و پریشان ہیں۔
اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔اِس صورتحال نے مایوسی کی ایک لہر دوڑا دی ہے اور طرح طرح کی افواہیں اور چہ مگوئیاں پھیل رہی ہیں۔ سچ پوچھیے تو عوام کا یہ رد عمل کوئی غیر فطری بات نہیں ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات ہر چیز پر فوری اور گہرا رد عمل مرتب کرتے ہیں۔
نگراں حکومت کا یہ قدم مرے پر سو درے کے مترادف ہے۔ اِس سے نہ صرف عوام کو ایک ذہنی جھٹکا لگا ہے بلکہ نئی حکومت پر سے اُن کا اعتبار اٹھ گیا ہے اور نگرانوں اور پرانوں کا فرق مٹ گیا ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت کو کس نامعقول شخص نے یہ مشورہ دیا ہے۔
اربابِ اختیار کو ہمارا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ اِس غلطی کا فوری احساس کریں اور اِس فیصلہ پر بلا تاخیر نظرِ ثانی کریں۔ اِس کے ساتھ ہی ساتھ عوام سے ہماری گزارش ہے کہ وہ نگراں حکومت کو تھوڑی سی مہلت دیں اور تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔نئی حکومت کو برسرِ اقتدار آئے ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے ہیں۔
اِس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی نووارد کسی مکان میں داخل ہوا ہو۔ پچھلی حکومت جو ملبہ چھوڑ کر گئی ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اُسے صاف کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہوگا۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ نگراں حکومت کے پاس نہ تو الہ دین کا چراغ ہے اور نہ جادو کی چھڑی۔جہاں تک نئی حکومت کا تعلق ہے تو اُسے چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے تو وہ ملبہ صاف کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرے اور ایسی منصوبہ سازی کرے جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو۔
اِس سلسلہ میں سب سے پہلی اور انتہائی اہم بات یہ ہے کہ میڈیا کا بھر پور تعاون حاصل کیا جائے جو پچھلی حکومت میں زباں بندی کی پالیسی اختیار کر کے ضایع کر دیا تھا۔ میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ قومی اور ملکی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے نئی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تاکہ عوام اور حکومت کے درمیان حائل خلیج کو جلد سے جلد پاٹا جاسکے۔
نگراں حکومت سے بھی ہماری استدعا ہے کہ میڈیا کے ساتھ اپنا رابطہ جلد سے جلد استوارکرے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سابقہ حکومت نے میڈیا کا گلا گھونٹ کر حکومت پر عوام کا اعتبار بالکل ختم کر دیا تھا۔ نگراں حکومت کو چاہیے کہ وہ میڈیا کے ذریعہ اپنے ہر اقدام سے عوام کو آگاہ رکھیں تاکہ اعتبارِ باہمی قائم رہے اور فضا سازگار رہے۔
ہمیں اندازہ ہے کہ حکومت کے سَر پر بڑی بھاری ذمے داریاں ہیں اور ملک کے معاشی حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں لیکن حکومت اگر چاہے تو اپنے بجٹ اور اخراجات کو کنٹرول کر کے اور پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافہ کو واپس لے کر اِن قیمتوں میں مزید کمی کر کے عوام کی حمایت حاصل کر سکتی ہے۔یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عوامی حمایت کے بغیرکوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکتی۔
ہمیں امید ہے کہ نگراں حکومت ہماری اِس تجویز پر بلا تاخیر غور کرے گی۔وزیرِ اعظم کو ہمارا ایک نہایت قیمتی مشورہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی گوں نا گوں مصروفیات میں سے کچھ نہ کچھ وقت نکال کر ملک کے حالات اور عوام کے مسائل سے آگاہ رہنے کے لیے خبروں اور کالموں پر نظر ڈالیں تاکہ عوام کے ساتھ اُن کا براہِ راست رابطہ قائم رہے۔
اب تک ہوتا یہی رہا ہے کہ حکمرانوں کو یہ بتایا جاتا رہا کہ سب کچھ اچھا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ وزیرِ اعظم نے ایک نہایت چھوٹی کابینہ تشکیل دے کر ایک زبردست مثال قائم کی ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی ایک فوج ظفر موج کی ایک دیرینہ روایت کو توڑا ہے تا کہ ملک کے وسائل پر ایک غیر ضروری بوجھ کو کم کیا جاسکے۔
ہمیں قوی امید ہے کہ وزیرِ اعظم اور اُن کی مختصر سی کابینہ اپنی عوام دوست کارکردگی کے ذریعہ ایک نیا ریکارڈ قائم کرے گی۔ سب سے بڑی اور آخری بات یہ ہے کہ نگراں حکومت کے لیے یہ ایک سخت امتحان ہے۔