ظلم در ظلم
ملک بھر میں بچیوں پر بہیمانہ تشدد، ان کی عصمت دری اور بے رحمانہ قتل کی خبریں دل دہلا دیتی ہیں
خبریں اتنی زیادہ ہیں ، سمجھ نہیں آرہی کہ کس پر تبصرہ کیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔ لیکن ان میں کوئی خبر خوش کن نہیں ہے۔
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ بری خبر سننے کو نہ ملے۔ پریشان کن خبریں سن کر طبیعت مکدر ہو جاتی ہے، ظلم کے پہاڑٹوٹ رہے ہیں اورجو ظلم کر رہے ہیں ، ان کے آگے بند باندھنے والا کوئی نہیں ہے، ان ظالموں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے اور یہ دندناتے پھر رہے ہیں۔
ملک بھر میں بچیوں پر بہیمانہ تشدد، ان کی عصمت دری اور بے رحمانہ قتل کی خبریں دل دہلا دیتی ہیں ۔ سچ پوچھیں تو میں دانستہ ایسی خبریں پڑھتا ہوں اور نہ ہی سننے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ پھول جیسی بچیوں کے ساتھ انسانی شکل کے درندے اس طرح کا ظلم بھی کر سکتے ہیں ۔
میرے بس میں اگر ہو اور قانون اجازت دے تو میں ان ظالم درندوں کو بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکا کر نشان عبرت بنادوں۔ نہ جانے ہم کس بے رحم اور بے حس معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں انسان حقیقتاً خونخوار درندوں کا روپ دھار چکے ہیں ۔
ابھی کل کی بات ہے کہ جڑانوالہ میں ہمارے مسیحی بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو دن دیہاڑے جلا دیا گیا اور اب ان جلے ہوئے کھنڈرات پر ہمارے ارباب اختیار اظہار افسوس کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
غلطی کسی ایک کی تھی لیکن ہم نے ''روایتی بہادری'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی سزا سب کو سنادی اور چند ہی گھنٹوں میں ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ۔ یہ جاہلیت نہیں تو اور کیا ہے، ہم اپنے مذہب سے کس قدر دور چلے گئے ہیں کہ اس کی اصل روح اور تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہمارے مذہب میں تو سب کے ساتھ رواداری کا سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
رب العالمین کا مطلب ہے کہ وہ تما م جہانوں میں بسنے والوں کا رب ہے، ان میں انسان ، چرند پرند سب شامل ہیں۔ نبی پاکﷺ نے جنگوںمیں بھی غیر مسلموں کو امان دی لیکن ہم اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں اپنے ہی غیر مسلم شہریوں کو امان دینے کو ہر گز تیار نہیں ہیں۔ میں مسیحوں کو اقلیت نہیں سمجھتا، ان کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مسلمان شہریوںکا ہے ۔
وہ گنتی میں کم ہوسکتے ہیں، ان کا مذہب الگ ہوسکتا ہے لیکن وہ اس دھرتی پر صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔ اس ملک کے شہری ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کا بھی اہم کردار ہے۔ جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کئی اعلیٰ عہدوں پر پاکستان کے مسیحی اور ہندو شہری فائز رہے ہیں، جسٹس اے آر کارنیلیئیس اور جسٹس بھگوان داس اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔
ادھر راہ چلتی مسافرگاڑیوں میں آگ بھڑک رہی ہے ، آگ میں جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے انسان زندہ جل رہے ہیں۔ یہ ہماری بدعمالیوں کا عذاب ہم پر نازل ہو رہا ہے ، مجھے وہ وقت زیادہ دور نظر نہیں آرہا جب ہماری اشرافیہ بھی عام انسانوں کے ساتھ شامل ہو جائے گی کیونکہ یہ جو اجتماعی جرائم اور ظلم ہمارے کھاتے میں لکھے دیے گئے ہیں ، ان کا بھاری حصہ اشرافیہ کا ہے جو خود تو زندگی کی سہولتوں سے فیض یاب ہور ہی ہے لیکن عام آدمی عذاب میں مبتلا ہے۔
بم دھماکوں میں ہمارے سیکیورٹی اداروںکے نوجوان شہادت پا رہے ہیں۔ شہید کا رتبہ بلا شبہ بہت بلند ہے لیکن ہمارے کئی ایسے جوان بھی شہادت کا رتبہ پا جاتے ہیں جن کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوتیں اور گھر میں ان کی مائیں بہنیں اپنے دلوں میں ان کے سہرے کے خواب سجائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ جب کہ والد کی عمر بھر کی ریاضت اور خواب ان کے نوجوان بیٹوں کی صورت میں اچانک بکھر جاتے ہیں ۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، ہمارے وہ کون سے گناہ ہیں جن کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ملک میں بد امنی، بد انتظامی، بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ کل کی ایک اور خبر نے سینہ چیر دیا کہ ایک ماں نے بھوک پیاس سے بلبلاتے اپنے تین لخت جگر وں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھا لیا اور پیچھے ہمارے جیسوں کے لیے سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ تم بھی اس کے ذمے دار ہو ۔
مسلمانوں کے ہاں گناہوں کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے اور پھر توبہ کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں کفارے تو بے شمار ہو سکتے ہیں لیکن توبہ کا کھاتہ خالی ہوتا ہے۔کیا ہم اس قابل بھی ہیں کہ ہمارے ادا کیے گئے کفارے اﷲکے ہاں قبول بھی ہو جائیں گے؟ ۔